جنرل الیکشن کرانے کے سوا اب کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو معلوم نہیں کس دشمن نے مشورہ دیا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیںاور بلند و بانگ دعووں کے ساتھ اپنے حکمرانی کا بغل بجائیں۔انہیں اس دلدل میںجس نے بھی دھکا دیا وہ کم ازکم ان کا دانا دوست نہیں۔مہنگائی کا ایک ہوش ربا طوفان سراٹھا رہاہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط تسلیم کرنے کے سواکوئی چارہ کار نہیں۔ یہ شرائط تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ حکومت کروڑوں پاکستانیوں کے چولہے بجھا دے۔ چولہے جن کے بجھیں گے، وہ خاموش تماشائی بن کر بیٹھنے والے نہیں۔ اپوزیشن میں جب سیاسی لیڈرشپ ہوتی ہے تو وہ شہریوں کو دودھ وشہد کی نہریں بہانے کا لولی پاپ دیتی ہے۔ حکومت پر جائز اور ناجائز تبرہ بازی کرتی ہے۔ عوامی جذبات کو زبان دیتی ہے اور لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹتی ہے۔ گزشتہ تین چار برس کے دوران نون لیگ کی لیڈرشپ دعوی کرتی رہی ہے کہ وہ مہنگائی کی چکی میں پھنسے عوام کو نکال باہر کرے گی۔آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرکے عوام کی مشکلات میں اضافہ نہیں کرے گی۔ بجلی ایک پیسہ مہنگی نہیں ہونے دیں گے۔ گیس کی بلاتعطل سپلائی ممکن بنائی گی لیکن اب یہ سب دعویٰ ہوا ہوچکے ہیں۔ ہر روز خبر آتی ہے کہ بجلی مہنگی ہوگئی ہے۔ پٹرول کے نرخ بڑھانے کے لیے حکومت پر تول رہی ہے لیکن عوامی غیض وغضب کے خوف اس کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ورنہ مفتاع اسمعیل پٹرول بم گرانے کو بے چین ہیں۔ وفاقی حکومت کے اندر مختلف نظریات اور خیالات کی حامل جماعتیں جمع ہیں۔ عمران خان کی مخالفت میں وہ یک جان دو قالب ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان کے داخلی تضادات کھل کر سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ مفادات کا ٹکراؤنمایاں ہوگا۔ بھان متی کا یہ کنبہ کبھی بھی بھنور میں پھنسی کشتی کو ساحل پر نہیں اتارسکتاہے۔حکمران اتحاد کی تمام اکائیاں اگلے الیکشن کی تیاری بھی کررہی ہیںانہیں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن بھی لڑنا پڑیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جس طرح کے معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل میں گر چکا ہے، اس سے چھٹکارہ پانے کے لیے غیر معمولی لیڈرشپ اور قومی سطح پر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر الیکشن کے نظام میں اصلاحات کے بغیر دو سو الیکشن بھی کرالیںملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکے گا۔الیکشن شفاف نہیں ہوگا اور تمام جماعتیں اس کی شفافیت پر اعتماد نہیں کریں گی تو بے چینی اور بے قرارتھمے گی نہیں۔ پاکستان میں حکومت حاصل کرلینا غالباً حکومت کرنے سے زیادہ دشوار ہے۔گزشتہ سات دہائیوں سے کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکی۔ ہر وزیراعظم یا تو اپنے بوجھ تلے دب گیا یا پھر اسے محلاتی سازشوں کے ذریعہ نکال باہر کیا گیا ۔ پہلی بار پاکستانی شہری دنیا بھر میں پاکستان تحریک انصاف کے پرچم تلے کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے عمران خان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں اقتدار سے نکالنے کے طرزعمل پر بھرپور احتجاج کیا۔ یہ احتجاج امید کی ایک کرن ہے کہ پاکستانی جاگ اٹھیں ہیں۔ وہ جمہوریت اور منتخب حکومت کے تسلسل کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں۔جن لوگوں نے تحریک انصاف کو دھوکا دیا اور پارٹی سے بے وفائی کی ان کے خلاف بھی شہریوں نے غم وغصے کا اظہار کیا۔ دنیا بھر میں رواج ہے کہ پارٹی سے اختلاف کرنے والے استعفے دے کر دوبارہ الیکشن لڑتے ہیں لیکن یہاں عجب معاملہ ہوا۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں نے بغیر کسی شرمندگی کے اپنی ہی جماعت کے نظم کی خلاف ورزی کی اور وہ اسمبلیوں میں بھی پوری ڈھٹائی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔پہلی بار لوگ ایسے سیاستدانوں کا ناطقہ بندکرنے اور انہیں شرمندہ کررہے ہیں جو کہ ایک بہت ہی مثبت رجحان ہے۔جو ممکن ہے کہ لوٹا کریسی کے سلسلے کو سست کرسکے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں عوامی موڈ میں جو تبدیلی دیکھنے کو نظر آئی وہ غیر معمولی طورپر مثبت ہے۔ معاشرے کے ان طبقات نے بھی کھل کرعمران خاں کی حکومت کو اپنی مدت پوری کیے بغیر نکالنے کی مذمت کی۔ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو عمومی طور پر سیاسی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنتے۔ ایسے بااثر افراد کی سیاسی نظام کے تسلسل کو قائم رکھنے اور عمران خاں کی حکومت کے خاتمے پر احتجاج نے معاشرے میں زبردست سیاسی شعور پیدا کیااور غیر جانبداری کے نام پر گداز بستروں پر پڑے لوگوں کو بھی متحرک کیا ۔چونکہ یہ تبدیلی معاشرے کے اندر سے پیدا ہوئی لہٰذا دیر پا اور اثر انگیز ہے ۔ عمران خاں اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ اس لیے بھی ہوا کہ عوام غیر جمہوری طرز سیاست سے عاجز آچکی ہے۔شہریوں کی غالب اکثریت کے خیال میں عمران خاں کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی ۔ ہزاروں لوگ اب ان کے جلسے میں جوش وخروش کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں جن میں اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہے جو ملک کو مثبت ڈگر پر ڈالنے کے لیے بے چین ہیں۔ جو فرسودہ طرزسیاست سے نالاں ہیں۔پی ٹی آئی کو صرف ان لوگوں کو پرامن رکھنے کی مسلسل تاکید کرنا ہوگی۔ اگرچہ ابھی تک کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا کہ جس سے ریاستی اداروں اور پی ٹی آئی کے کارکنان میں تصادم ہو ا ہو لیکن مسلسل انہیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ احتجاج ، جلسوں ، لانگ مارچ اور دھرنوں کو پرامن رکھنے کی صورت میں احتجاج کو ملکی اور عالمی میڈیا میں مثبت کوریج ملنے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کا اب عام الیکشن کے سوا کوئی حل نہیں۔ الیکشن کرانے سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے الیکشن کا نظام وضع کیا جائے۔ الیکشن کمیشنر پر اگرملک کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی کو اعتماد نہیں تو انہیں گھر کی راہ لینی چاہیے ۔پاکستان ایک اور متنازعہ الیکشن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ کس پارٹی کو حکمرانی کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ ریاست کے تمام ادارے الیکشن میں غیر جانبدار رصرف نظر ہی نہ آئیں بلکہ حقیقت میں غیر جانبدار رہیں تاکہ آزادانہ اور شفاف الیکشن ہوسکیں۔نیا الیکشن ہی پاکستان کو موجودہ مشکلات سے نکال سکتاہے۔ موجودہ مخلوط حکومت کے حق میں بھی بہتر ہے کہ وہ بوریا بستر گول کرکے الیکشن کے لیے میدان میں اترے۔ ٭٭٭٭