پاکستان دشمنی میں اگر سازشی کہانیاں گھڑنے کا مقابلہ کیا جائے تو پاکستان کے میڈیا پر چھائے، سیکولر لبرل اور بھارت پرست دانشور، تجزیہ نگار اور اینکر پرسن جیت جائیں۔ چند گھنٹے نتائج کے التواء نے ان سب کی صلاحیتوں کو جلا بخش دی۔ ایسے ایسے نکتے نکالے گئے کہ شرلاک ہومز اور آگاتھا کرسٹی کی تحریریں بھی شرما جائیں۔ پورے پاکستان کے چینل اور ان پر بیٹھے ہوئے صحافی جب یہ درفنطنیاں چھوڑ رہے تھے، تو دوسری جانب عمران کی جیت سے خائف بھارتی میڈیا اسے ’’کشمیر خان‘‘اور’’طالبان خان‘‘ کے لقب سے پکار رہا تھا۔ تجزیوں کا کمال دیکھیں کہ جس ملک کے تقریبا پچاس شہروں میں ٹی وی چینلوں کی ڈی ایس این جی گاڑیاں کیمروں کے ساتھ موجود ہوں، وہ مسلسل کئی گھنٹے یہ خبر سناتے رہے کہ پولنگ ایجنٹوں کو زبردستی پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکال دیا گیا اور بیس کے قریب بڑے نیوز چینلوں میں سے کسی ایک نے بھی کسی ایک ایسے پولنگ ایجنٹ کا انٹرویو نشر نہیں کیا جسے باہر نکالا گیا تھا۔ یہ پولنگ ایجنٹ ایک سیاسی ورکر ہوتا ہے، اسے میڈیا کے سامنے آکر بات کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہوتی، لیکن یہ ایسے ’’شرمیلے کارکن‘‘ تھے کہ رات بھر میڈیا کے سامنے نہ آسکے مگر ہمارے زیرک تجزیہ نگار، سیاسی پارٹیوں کے بیانات پر ایک کہانی بناتے رہے، ایک نہیں بلکہ کئی کہانیاں۔ کچھ کہتے دراصل عمران خان کو واضح جیت دلانا مقصود ہے، اس لئے ان دس پندرہ سیٹوں پر جہاں وہ جیت نہیں رہا ہے وہاں رزلٹ تبدیل ہو رہا ہے۔ اگر ایسا کرنا تھا تو 270 حلقوں کا رزلٹ روکنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ پھر کہا گیا رزلٹ روک لیے گئے اور فوج ٹھپے لگا رہی ہے۔ یہ سب کچھ ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھے تجزیہ نگار اور رپورٹر بتائے جارہے تھے، لیکن کوئی نوے ہزار پولنگ سٹیشنوں میں سے کسی ایک کے باہر اپنا کیمرہ لے کر نہ پہنچا کہ یہ دیکھو ! یہاں یہ لوگ بند ہیں، باہر فوج کا پہرا ہے اور اندر ٹھپے لگائے جا رہے ہیں۔ بدترین تبصرہ یہ تھا کہ دیکھو اس ملک میں اب انارکی پھیلے گی۔ لوگ فوجیوں کے ساتھ دست و گریباں ہو جائیں گے۔ پھر اس کے بعد ملک اور اس کا مستقبل خطرے میں آجائے گا۔ لیکن رات دس بجے سے پہلے یہ سب تجزیہ نگار ایک اور طرح کی کہانی بیان کر رہے تھے، کہ دیکھیں پورا رزلٹ آنے کا انتظار کریں۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کا ہمدردی کا ووٹ نون لیگ کو نہ ملے۔ اگر ہمدردی ہی پیمانہ ہوتی تو بینظیر کی موت کے بعد پیپلزپارٹی سندھ کے علاوہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بری طرح ہار گئی تھی۔ پھر کوئی تجزیہ نگار بولا، نون لیگ کو دراصل نواز شریف کی بہادری کا ووٹ ہے، اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا ووٹ ملے گا۔ بھائی، اگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا ہی بہادری کی علامت ہے تو پھر ملا فضل اللہ کی تو ہر امیدوار کو تصویریں لگا کر ووٹ مانگنا چاہیے تھا۔ ان تجزیہ نگاروں کی ان خواہشات کا اظہار تو اس دن سے ہونا شروع ہوگیا تھا جب یہ اعلان ہوا تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات ہوگی۔ ہر کوئی کہتا دیکھو الیکشن کا ہنگامہ ہو گا، ایک پولنگ اسٹیشن پر ہزاروں افراد جمع ہوں گے، اگر اس دوران کسی فوجی سے ہاتھا پائی ہوگئی تو پھر گولی چل جائے گی، گولی چل گئی تو فساد پھیلے گا، فساد پھیلے گا تو شہروں میں ہنگامے پھوٹیں گے اور پاکستانی فوج اپنے ہی شہریوں کے مقابل آکر کھڑی ہو جائے گی۔ الیکشن کا پورا دن گزرا، ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ رزلٹ لیٹ ہوئے تو ان کے چہرے کھل اٹھے۔ ایک بار پھر ابن صفی کے ناول کی کہانیاں واپس لوٹ آئیں۔ الیکشن کے اس سارے قضیے میں نقصان صرف ایک طبقے کا ہوا ہے اور وہ ہے مذہبی طبقہ جو اس ملک میں صرف اور صرف الیکشن کے لیے اکٹھا ہوتا ہے، ووٹ کی بھیک مانگتا ہے، لوگوں پر کفر کا الزام لگاتا ہے، یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ بناتا ہے، لیکن جیسے ہی الیکشن ختم ہوتا ہے یہ سب کے سب جمعے کے خطبوں میں اپنے مسلکی تیر و نشتر سے مسلح ہوکر دوبارہ ایک دوسرے کے خلاف میدان میں نکل آتے ہیں۔ عینی صلحا و علما نے ووٹ کی بھیک مانگنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ کسی اور شخص اور جماعت کو کسی کی دوستی اور محبت کا اتنا نقصان نہیں ہوا ہوگا جتنا سراج الحق کو مولانا فضل الرحمن کی دوستی اور جماعت اسلامی کو جمہوری تصور سے محبت کرنے سے ہوا۔ 29 جون 2018ء کو سراج الحق صاحب کے ایک بیان نے مجھے اس قدر تکلیف دی کہ پوری باسٹھ سالہ زندگی میں کبھی اتنی تکلیف نہیں ہوئی۔ میں نے اس وقت کالم اس لیے نہیں لکھا کہ کہیں جماعت اسلامی والے اپنی ہار کا الزام مجھ پر نہ ڈال دیں۔ سراج الحق صاحب ووٹ کی بھیک مانگتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے کہ ’’مینڈیٹ کا احترام ہوتا تو بنگلہ دیش نہ بنتا‘‘۔ اس بیان کا ایک ایک لفظ میرے سینے میں تیر ہوگیا۔ یہ بیان دیتے ہوئے سراج الحق کو عبدالقادر ملا اور مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی پر جھولتی ہوئی لاشیں بھی یاد نہ آئیں‘یہ البدر اور الشمس کے شہداء کو بھی فراموش کر گئے۔ کیا شیخ مجیب الرحمن کے بارے میں وہ ساری باتیں جھوٹ تھیں جو پروفیسر غلام اعظم ہمیں آخری وقت تک بتاتے رہے۔ کیا ووٹ کی بھیک اور نواز شریف اور فضل الرحمٰن کا بیانیہ اتنا مقدس اور محترم ہے کہ امیر جماعت اسلامی اپنے شہیدوں کو بھول جائے۔ درست کیا ان لوگوں نے جنہوں نے آپ کو آئینہ دکھایا۔ ان سب لوگوں کو دکھایا جو عالمی اور بھارتی ایجنڈے کے غلام ہوگئے تھے۔ ایک کلچر، ایک تہذیب کا نعرہ تو ذوالفقار علی بھٹو نہیں لگا سکا تھا۔ اس نے آریانا فلاچی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا مجھے اس دن پتہ چلا تھا کہ ہندو اور ہم علیحدہ قوم ہیں، جب میں اپنے ہندو دوستوں کے گلاس سے پانی پینے لگا تو انہوں نے کہا تمہارا گلاس دوسرا ہے۔ لیکن یہاں تو ایک طرح کا آلو گوشت کھانے والے نواز شریف کا بیانیہ خریدنے والے بہت تھے۔ لیکن لوگوں نے بتادیا گیا کہ اے لیڈران کرام ! ہمیں معلوم ہے کہ ہماری اساس کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ہزار سال تک کشمیر سے جنگ کرنے کے بیان کی وجہ سے ووٹ ملے تھے اور نواز شریف کو سرحدیں ختم کرنے کے بیانیے پر نفرت میسر آئی۔ مولانا مودودی کے قریبی ساتھی رانا نذر الرحمن 2013 ء کے الیکشن کے بعد میرے پاس آئے اور زار و قطار رونے لگے۔ کہنے لگے آپکو پتہ ہے ٹیک سوسائٹی کے پولنگ سٹیشن سے جماعت اسلامی کو کتنے ووٹ ملے تھے، صرف ایک اور وہ میرا تھا۔ یہ وہ سوسائٹی ہے جس میں مستقل درس قرآن ہوتا ہے اور لوگ مولانا مودودی کی کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن وہ اب مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ کہاں گئے جماعت اسلامی کے وہ لوگ جو معاشرے میں روشن ستاروں کی طرح ہوتے تھے۔ آج وہ دانشور ادیب اور پوری دنیا کے سیکولر کس قدر خوش ہوں گے جو کھینچ تان کر مذہبی طاقتوں کو ’’مین سٹریم‘‘ سیاست میں لانا چاہتے تھے۔ ان تمام علماء کو جمہوریت کی سیڑھی پر چڑھانا چاہتے تھے۔ کمال دیکھیے کہ جمہوریت کی اس سیڑھی سے یہ علماء صرف پھسلے نہیں بری طرح گرے ہیں، بلکہ عوام نے گرایا ہے۔ آج رینڈ کارپوریشن کے ان مفکروں کے لیے خوشی کا دن ہے جو یہ کہتے تھے کہ مغرب اگر اسلام اور مسلمانوں کو اپنا مطیع بنانا چاہتاہے تو ان مذہبی طاقتوں کو جمہوری سیاست اور جمہوری اداروں کی لت ڈال دے، پھر دیکھے وہ کیسے تمہیں، تمہارے نظام اور طرز معاشرت کو اپنا آئیڈیل بنا لیں گے۔ آج ان سیکولر، لبرل اور جدید مذہبی دانشوروں کی خوشی کا دن ہے جو مذہبی طاقتوں کو جمہوریت کے اکھاڑے میں کھینچ کر ان کی رسوائی چاہتے تھے۔