جس وقت میں نے یہ کالم قلمبند کیا ہے انتخابی مہم کے ختم ہونے میں صرف 6گھنٹے باقی ہیں۔ اور اس وقت تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں ایک عجیب سی تیزی آ گئی ہے۔ ایسے ہی جیسے چراغ بجھنے سے پہلے زور سے پھڑ پھڑاتا ہے۔ یہاں مگر منگلا کینٹ کی اس شہر سے قدرے دور خاموش اور پرسکون برال کالونی میں اس ہنگام کی کوئی خبر نہیں ملتی۔ میں گزشتہ دو دن سے یہاں ہوں ہاں لاہور میں جہاں میری رہائش ہے اقبال ٹائون وہاں ‘ الیکشن مہم کے آخری دنوں میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے انتخابی نغموں سے گونجتی ہوئی ریلیاں آس پاس کے مکینوں کو الیکشن 2018ء کا پتہ دیتی رہیں اور لاہور تو پھر لاہور ہے۔ الیکشن 2018ء کی ماٹھی اور قدرے ٹھنڈی انتخابی مہم بھی کئی حلقوں میں وہاں عروج پر رہی۔ بروز منگل چونکہ میں سفر میں ہوں گی اس لیے کالم ایک دن پہلے لکھنا پڑا جس روز یہ کالم چھپے گا الیکشن ڈے ہو گا۔ یعنی آج کا دن 25جولائی بروز بدھ2018ء طلوع ہو چکا اور بالآخر آج 20کروڑ عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ جماعتوں کو یہ جملہ کس قدر خوش کن لگتا ہے کہ آج عوام اپنے ووٹ کی طاقت کا حق استعمال کریں گے اور اگلے پانچ سال کے لیے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں گے۔ عوام ایک دن اپنی ووٹ کی طاقت کا استعمال کرتے ہیں اور باقی کے پانچ سال اقتدار کی طاقت انہیں فراموش کیے رکھتی ہے۔ تاوقت یہ کہ کوئی پانامہ ہو جاتا ہے۔ کوئی نااہلی ہو جاتی ہے اور اہل اقتدار کو ووٹ کی بے عزتی کا خیال ستانے لگتا ہے۔ پھر یہاں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگتا ہے۔ 25جولائی 2018ء کو انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بہت سے شکوک و شبہات بھی پائے جاتے تھے۔ بے یقینی کی گرد بے پناہ تھی کچھ تجزیہ کار کہہ رہے تھے کہ انتخابی مہم چلانے کے لیے امیدواروں کو رمضان المبارک کے روزوں کی وجہ سے مناسب وقت نہیں ملا۔ پھر جولائی کا شدید حبس آلود موسم جلسوں میں لوگوں کا آنا اور اپنے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں کی بار بار کی سنی ہوئی تقاریر سننا ممکن نہ ہو گا۔ لیکن اس حبس بھرے موسم میں شدید گرمی میں جہاں تک ہو سکی انتخابی مہم بھی چلائی گئی۔ جلسے ہوئے ریلیاں بھی نکالی گئیں لیکن اصل انتخابات کی مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی جہاں سیاسی جماعتوں کے حمایتی اور مخالفین ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رہے۔ الیکشن 2018ء اس حوالے سے ماضی میں ہونے والے انتخابات سے مختلف ہیں کہ اس کی انتخابی مہم میں اسی فیصد کردار سوشل میڈیا کا ہے۔ الیکشن میں اس بار سیاسی جماعتوں نے فیس بک ٹوئٹر اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کو ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کو ووٹر تک اپنا پیغام پہنچانے سے زیادہ سیاسی حریفوں کو بدنام کرنے اور ان کی خامیاں اجاگر کرنے کے لیے زیادہ استعمال کیا گیا۔ میرا ماننا ہے کہ انتخابی مہم کا اسی فیصد کام سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر کر لیا گیا تھا۔ باقی کا 20فیصد جلسے جلوس ریلیاں اور کارنر میٹنگز میں مکمل ہوا یہی وجہ ہے کہ اس بار سکرین سے دور حقیقی میدان میں الیکشن مہم کی وہ گہما گہمی دکھائی نہیں دی۔ گزشتہ دنوں جب لاہور سے جی ٹی روڈ پر سفر کرنے کا موقع ملا تو سوائے لالہ موسیٰ کے کسی بھی شہر سے گزرتے ہوئے گمان نہیں ہوا کہ قومی انتخابات چند دن کے فاصلے پر ہیں۔ یہاں تک کہ گوجرانوالہ‘ گجرات جیسے اہم شہروں میں بھی الیکشن مہم کے آثار کم ہیں دکھائی دیے۔ ہاں لالہ موسیٰ سے گزرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے جھنڈے سے سجے ہوئے بینرز کی خوب بہار دکھائی دی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں پی پی کی انتخابی مہم صرف بلاول زرداری کے پہلے الیکشن کی وجہ سے کچھ توجہ کھینچتی ہے وگرنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابی معرکے میں پیپلز پارٹی کہیں دبکی بیٹھی ہوئی ہے یہاں تک کہ لاہور کے بعض حلقے ایسے ہیں جہاں ایسے گمان گزرتا ہے کہ الیکشن صرف پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان ہے لاہور شہر میں آپ کو کم ہی پیپلز پارٹی کے جھنڈے اور بینرز دکھائی دیں گے اس لیے لالہ موسیٰ میں تیر اور سرخ‘ کالے‘ سبز رنگ کے جھنڈوں کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ الیکشن 2018ء اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ پیپلز پارٹی جو کبھی ملک کی بڑی سیاسی جماعت تھی اور جس کی موجودگی چاروں صوبوں میں محسوس ہوتی تھی اس الیکشن میں سندھ تک محدود ہو چکی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس بار گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی موجودگی میں سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے لیے جیت آسان نہیں ہو گی۔الیکشن 2018ء اس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی اور سابقہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن اس بار گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔ تین بار وزیر اعظم بننے والے پارٹی کے قائد اڈیالہ جیل میں ہیں۔ مریم نواز شریف جو گزشتہ پانچ سالوں میں بہت آئوٹ سپوکن رہیں اور جن کے ٹویٹس سیاسی منظر نامے پر ہلچل مچاتے رہے اپنے شوہر سمیت جیل میں ہیں۔ حنیف عباسی کو الیکشن سے تین دن پہلے ایفی ڈرین کیس میں عمر قید کی سزا ہوئی۔ سو آج کا الیکشن ن لیگ کے لیے انتہائی اہم اور کڑا اس لحاظ سے ہے کہ آج ثابت ہو جائے گا کہ ن لیگ کا ووٹر نواز شریف کے بیانیے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ پر یقین رکھتا ہے یا نہیں کسی حد تک آج کا الیکشن ن لیگ کے لیے اس کے سروائیول کی جنگ ہے۔ اب آتے ہیں تحریک انصاف اور الیکشن 2018ء کے تجزیے کی طرف۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ وہ الیکشن ہے جس کا انتظار عمران خان نے گزشتہ 22سال کی سیاسی جدوجہد میں کیا۔ یعنی سیاسی ہوا بھی تحریک انصاف کے حق میں ہے۔ ماحول بھی جیت کے لیے سازگار ہے اور عوامی رائے عامہ ایک نئے پاکستان کی امید میں عمران کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتی ہے۔ یعنی رسم دنیا‘ موقع اور دستور سب کچھ پی ٹی آئی کے حق میں ہے۔ پی ٹی آئی کا ورکر بھی جیت کے نشے میں خوش دکھائی دیتا ہے اور فتح حاصل کرنے کا سرور چیئرمین کے چہرے سے بھی صاف عیاں ہوتا ہے۔ آج الیکشن کا دن ہے اور پی ٹی آئی کے ورکروں میں بے حد جوش و خروش ہے اپنے تئیں وہ آج ووٹ ڈال کر نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے۔ جیت کے اس سارے ماحول میں ایک بات ضرور کھٹکتی ہے کہ پی ٹی آئی کی سب سے بڑی حریف سیاسی جماعت ن لیگ کے خلاف احتساب کے عمل نے الیکشن سے پہلے گرفتاریوں اور اس طرح کی کچھ اور ڈویلپمنٹس نے تحریک انصاف کے حق میں جیت کا پلڑا جھکا کر‘ ان سے سخت اور کڑے مقابلے کے بعد فتح حاصل کرنے کی خوشی چھین لی ہے۔ حریفوں کی طرف سے عمران خان پر ’’لاڈلا‘‘ ہونے کے الزامات الگ لگائے جا رہے ہیں۔ بہرحال آج الیکشن 2018ء کا تاریخی مرحلہ بھی اختتام کو پہنچے گا۔ رات تک نتائج آنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان کے کئی حلقوں میں بڑے بڑے سیاسی سورما مد مقابل ہیں ایسے حلقوں میں یقینا دلچسپی کا عفریت زیادہ ہے جہاں سنسنی خیز مقابلے کی توقع ہے۔ کل تک صورت حال واضح ہو جائے گی۔آج عوام کا دن ہے عوام ووٹ کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کریں گے اور پھر اگلے پانچ سال تک اقتدار کے طاقت ور ایوانوں میں اس عوام کے نام پر اپنے اپنے مفاد کی سیاست ہو گی۔!! رہے عوام کے خواب اور ان کی امیدیں۔ پرانے پاکستان میں تو انہیں روند کر آگے گزر جانے کی رسم تھی۔ دیکھیے اب نئے پاکستان میں کیا ہو گا۔!