گزشتہ دو دہائیوں میں ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات نے دنیا بھر میں جمہوری نظام کو خاصا متاثر کیا ہے۔ایک اہم ایجاد الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہے۔ اسے مختلف ملکوںنے پولنگ کروانے کیلیے کاغذ کے بیلٹ کی جگہ متعارف کروایا۔ اسکے استعمال پر دنیا بھر میں خوب بحث مباحثہ بھی ہُوا‘ تحقیقی مطالعے لکھے گئے۔ اسکی خوبیوں اور خامیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ کئی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ الیکٹرانک مشین سے ووٹ ڈالنے کا طریقہ زیادہ مفید ہے‘ خاص طور سے ان ممالک کیلیے جن کی آبادی اور ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ زیادہ نپا تُلااورتیز رفتارکاحامل طریقہ ہے۔انکے استعمال سے ووٹ ڈالنے کا عمل سادہ ہوگیا اور پسماندہ طبقات کی انتخابی عمل میں شرکت بڑھ گئی۔دنیا کے اکتیس جمہوری ممالک بشمول امریکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیںاستعمال کرتے ہیں‘ گیارہ دیگر ممالک جزوی طور پر مشینوں کے ذریعے پولنگ کرواتے ہیں۔ تاہم چند ممالک بشمول قازقستان‘ فن لینڈ نے انہیںایک بار استعمال کرنے کے بعد ترک کردیا ۔ ان ملکوں کی آبادی بہت کم ہے۔ انہیںشائد اسکی ضرورت بھی نہیں تھی۔ جرمنی‘ آئرلینڈ‘ہالینڈ‘ ناروے‘ رومانیہ نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا محدود تجربہ کرکے دیکھا لیکن انہیں اختیار نہیں کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال میں لانا چاہتی ہے۔ حکومتی جماعت کا خیال ہے کہ اِنکو استعمال کرنے سے الیکشن زیادہ صاف شفاف ہوجائیں گے ‘متنازعہ نہیں ہونگے۔ جبکہ حزب اختلاف کی تمام بڑی جماعتیں ووٹنگ مشینوں کے سخت خلاف ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ان مشینوں پر سینتیس نکات پر مبنی اعتراضات کرچکا ہے۔ حکومتی نمائندوں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان اِس معاملہ پر خاصی تلخی ہوچکی ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن اصلاحات کا مسودۂ قانون مسترد کردیا ہے۔ اس مسودہ میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک مشین کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی شق شامل تھی۔ سینٹ کمیٹی میں ناکامی کے بعد حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات کا بل منظور کروالے گی۔ اگر اپوزیشن اپنے موقف پر ڈٹی رہی توقانون وسیع سیاسی تائید سے محروم ہوگا۔ راقم الحروف نے 2004 میں انڈیا میں رپورٹر کی حیثیت سے وہاںکے عام انتخابات کی کوریج کی تھی۔ اسوقت پہلی مرتبہ پورے بھارت میں الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹنگ ہورہی تھی۔اس سے پہلے کئی بھارتی صوبوں میں ریاستی الیکشن اور بلدیاتی الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہوچکے تھے۔ ان تجربات کی روشنی میں انگریزی اخبارات میںاس مشین کے فوائد اور نقائص پر مضامین شائع ہورہے تھے۔ تاہم الیکشن ہوگئے ۔ ستّر کروڑ رائے دہندگان تھے جنکی اکثریت نے حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی۔ بھارت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے کامیاب استعمال کی بڑی مثال ہے۔ گزشتہ عام انتخابات ( 2019) میں نوّے کروڑ سے زیادہ ووٹر تھے اور تقریباًپینسٹھ فیصد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اتنے بڑے ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال سے ووٹ کی راز داری متاثر نہیں ہوئی۔ کوئی فراڈ نہیں ہوا لیکن حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں جہاں مجموعی طور پرصرف گیارہ کروڑ ووٹر ہیں یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان مشینوں سے ووٹ ڈالے گئے تو فراڈ ہوجائے گا‘ رازداری نہیں رہے گی۔کوئی ایلفی ڈال کر مشین خراب کرسکتا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔کئی خدشات مضحکہ خیز ہیں۔ انڈیا میں جب الیکٹرانک ووٹنگ مشینوںپرشکوک و شبہات بڑھے تودو برس پہلے وہاںالیکشن کمیشن نے ان مشینوں کی صحیح ہونے کی تصدیق کا ایک آڈٹ نظام متعارف کروایا۔اس نئے طریقہ کے تحت جب کوئی آدمی ووٹ ڈالتا ہے تو مشین کے ساتھ اس میں موجود ایک کاغذ پر بھی ووٹ رجسٹر ہوجاتا ہے جسکا اگر ضرورت پیش آئے تو پرنٹ لیا جاسکتا ہے۔اسے آڈٹ ٹریل کہا جاتا ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ کے حکم پر گزشتہ عام انتخابات میں سترہ لاکھ ووٹوں پر اس آڈٹ نظام کا اطلاق کیا گیا ۔ بعد میںستائیس ہزار ووٹوں کو عام طریقہ سے گِن کر مشین کے نتائج سے انکا موازنہ کیا گیا تو ایک بھی غلط ووٹ نہیں نکلا۔ یعنی مشین کا نظام بالکل درست تھا۔ پاکستان میں حکومت نے جو الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کروائی ہے اس میں بھارتی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے پہلے مرحلہ میں ہی یہ آڈٹ نظام اختیار کرلیا گیا ہے۔ یہ خدشات بالکل بے بنیاد ہیں کہ کوئی حکمران سیاسی جماعت یا حکومتی ادارہ مشین میں پہلے سے اپنے مرضی کے نتائج فیڈ کرسکتاہے۔ ووٹنگ مشینیں الیکشن کمیشن کے قبضہ میں ہونگی اور حکومت نگران ہوگی۔ ایسے فراڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ آڈٹ نظام کے ذریعے جن پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کی تصدیق مقصود ہو اسکی جانچ پڑتال کی جاسکتی ہے۔ اس بات میںوزن ہے کہ اگلے عام انتخابات میں صرف دو سال رہ گئے ہیں اور اس مختصر عرصہ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو پہلی بار پورے ملک میں متعارف کروانا بہت مشکل کام ہوگا۔ انڈیا نے بھی انہیں پوری طرح متعارف کروانے سے پہلے چار پانچ سال تک صوبائی‘ بلدیاتی انتخابات میں جزوی طور پر استعمال کرکے انکا جائزہ لیا تھا۔ حکومت ایک درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرسکتی ہے کہ اگلے جنرل الیکشن میں تمام انتخابی حلقوں کی بجائے نصف حلقوں میں یا صرف چودہ پندرہ بڑے شہروں میں پولنگ کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرلی جائے۔نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے زیادہ دیر تک بچا نہیں جاسکتا ۔ جن ملکوں نے انہیں ابھی تک استعمال کرنا شروع نہیں کیا وہ بھی اسکی طرف جائیں گے۔ بہتر ہے کہ ہم بتدریج اس راستے پر آگے بڑھتے جائیں۔ جس تیزی سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے، ایک وقت ایسا بھی آنیوالاہے کہ پولنگ اسٹیشن بھی نہ بنانے پڑیں اور لوگ اپنے گھروں سے اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ کے ذریعے ووٹ ڈال سکیں۔ ہم کب تک ازمنہ وسطیٰ میں زندہ رہیں گے؟