کہتے ہیں ایک گائوں الٹا پور نام کا تھا۔ یہاں کے لوگ تو ویسے ہی تھے جیسے اور جگہ کے ہوتے ہیں لیکن لفظ ہر ایک الٹا بولتے یعنی ان کی اپنی ہی شبدائولیvacubalaryتھی۔ جیسے کہ بارات آ رہی ہو تو کہتے کس کی ارتھی آ رہی ہے۔ جنازے کو دیکھ کو پوچھتے‘ دولہا میاں کون ہیں۔ آم کو ہاتھی کہتے‘ ہاتھی کو بلی۔ چتا جلنے کو پھلجڑی چھوٹنے کا نام دیتے۔ حجلہ عروسی کو شاید تہاڑ جیل کہتے ہوں گے۔ الٹا پور کی اس بھولی بسری کہانی کی یاد وزیر خزانہ نے تازہ کر دی۔ فرمایا‘ہم نے غریبوں کے لئے چیزیں سستی کر دی‘ امیروں کے لیے البتہ مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ صحافیوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ ہمارے سروے کے مطابق مہنگائی میں خاصی کمی ہو گئی ہے۔ بات سمجھ میں آتی ہے۔ اشرافیہ کا نام غریب رکھ دیا‘ غریب کا امیر‘ مہنگائی کو سستائی کہہ دیا۔ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد‘ پتہ نہیں کبیرا سن پاتا تو کتنا روتا اور وزیر خزانہ کے سامنے روتا تو وزیر موصوف کیا کہتے‘ یہی کہتے دیکھو کبیرا کیسے پھوٹ پھوٹ کے ہنس رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایک خبر کی سرخی یہ ہے کہ لاہور میں سڑیٹ کرائم بڑھ گیا۔ ڈاکو اور چور بے قابو۔ پولیس لمبی تان کر سو گئی۔ جنوری کے پہلے 13روز میں ڈکیتی کی 200وارداتیں۔ ایک خبر ہے کہ ہر روز ایک بچہ اغوا ہو رہا ہے۔ اتنی لمبی سرخی دینے کی کیا ضرورت تھی۔ بس اتنا لکھ دیتے کہ لاہور اور کراچی جڑواں شہر ہو گئے۔ ٭٭٭٭٭ خوشاب میں ایک دہری شہریت والے وزیر نے دورہ فرمایا‘50گاڑیوں کا پروٹوکول قافلہ ساتھ تھا۔ خبر کے مطابق شہری یہ کروفر دیکھ کر مبہوت رہ گئے۔ حالانکہ انہیں ’’مسکوت‘‘ ہو جانا چاہیے تھا۔ مسکوت یعنی سکتے میں آ گئے۔ خیر‘ یہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو نیچا دکھانے کی کوشش لگتی ہے۔ وزیر اعلیٰ موصوف جہاں بھی جاتے ہیں‘ محض 28یا 30گاڑیوں کا پروٹوکول قافلہ ہمراہ ہوتا ہے۔ دو تین دن پہلے گوجرانوالہ گئے تو ہیلی کاپٹر کو ذریعہ سفر بنایا کہ کار سے سستا پڑتا ہے۔ بچت ہوئی پیسے کی بھی وقت کی بھی۔ چلئے اتنا فرق تو ہونا ہی چاہیے کہ وزیر اعلیٰ کتنا ہی اعلیٰ ہو‘ ہے تو صوبائی شے ہی اور وزیر وفاقی شے ہوتا ہے۔ اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وفاقی شے صوبائی شے سے بڑی شے ہوتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے طعنہ دیا کہ وزیر اعظم پانچ ماہ سے اسمبلی میں نہیں آئے۔ حالانکہ الیکشن سے پہلے اور فواً بعد انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہفتے میں ایک دن کئی گھنٹے تک ایوان میں بیٹھا کریں گے اور سوالوں کے جواب دیا کریں گے۔ یہی شکوہ تین دن پہلے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ خاں صاحب نے ایوان کا بائیکاٹ کیوں کر رکھا ہے۔ عرض ہے کہ وزیر اعظم ان دنوں خصوصی طیارے کے بغیر کہیں نہیں آتے جاتے۔ جہاز کے سوا کسی اور سواری میں پائوں نہیں دھرتے۔ اپوزیشن فنڈز اکٹھا کر کے قومی اسمبلی کی عمارت میں ہوائی اڈہ بنا دے۔ زیادہ بڑا نہیں بس اتنا کہ وزیر اعظم کا خصوصی طیارہ لینڈ کر سکے۔ اس کا شکوہ دور ہو جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ امریکی صدر ٹرمپ نے کردوں کے خلاف ترکی کی متوقع فوجی مہم کے حوالے سے دھمکی دی ہے کہ ایسا ہوا تو وہ ترکی کی معیشت تباہ کر دیں گے۔ کیسے تباہ کر دیں گے؟ کیا وہاں بھی کسی خان کو وزیر اعظم لگوا دیں گے؟ معیشت تباہ کرنے کا تیز رفتار ترین ذریعہ اور طریقہ آج یہی مانا جاتا ہے۔ ویسے ترکی کی معیشت بہت مضبوط ہے۔ ایک تبدیلی خاں سے کام نہیں چلے گا۔ کم از کم دو کی ضرورت پڑے گی۔ ٭٭٭٭٭ بلوچستان میں تحریک انصاف کے پارلیمانی قائد سردار یار محمد رند نے کہا ہے کہ بلوچستان میں قحط سالی کی صورت حال انسانی المیے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ قحط زدہ علاقوں سے 90فیصد آبادی نقل مکانی کر گئی۔ بے شمار دیہات ایسے ہیں جہاں انسان تو کیا‘ کوئی جانور بھی باقی نہیں رہا۔ حکومت کچھ کرے۔ لگتا ہے ‘ خاں صاحب کی طرح یہ صاحب بھی بھول گئے کہ حکومت کس کی ہے۔ حضور‘ وفاق میں آپ کی حکومت ہے اور صوبے میں باپ کی یعنی بی اے پی کی جو آپ کی اتحادی ہے۔ دونوں جگہ جب آپ ہی ہیں تو اپنے آپ سے مطالبے کی کیا ضرورت۔ ویسے یہ پہلی خبر بلوچستان کے قحط کے حوالے سے ہے۔ جو اخبارات میں چھپی ہے۔ لوگوں کو اس قحط کا علم سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا‘ اخبارات میں کچھ نہیں آیا۔ ہاں دو ہفتے پہلے 92ٹی وی نے جرات کی اور ایک پروگرام اس پر کیا۔ بلوچستان کا ذکر ہو تو اخبارات محتاط ہو جاتے ہیں لیکن ایسی بھی کیا احتیاط کہ قحط کی خبر بھی اس کی نذر ہو جائے۔ یہ خبر بھی یوں چھپ گئی کہ بیان دینے والا حکمران پارٹی کا لیڈر تھا ورنہ تو… ٭٭٭٭٭ ایک رپورٹ آئی ہے کہ موجودہ حکومت نے قرضے لینے کے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور یہ فی منٹ ایک کروڑ تیرہ لاکھ 68ہزار 55روپے کے حساب سے قرضے لے رہی ہے۔ کیلکو لیٹر سے کیا خوب بریک اپ کیا۔ فی سیکنڈ کیا رقم ہو گی؟اندازاً ڈیڑھ لاکھ روپے۔ فی سیکنڈ کے حساب سے قرضے لینے والی حکومت کو کیا کہا جائے؟ تبدیلی کی بلٹ ٹرین؟