حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پا گیا جس میں ایک لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہ لینے والوں پر ٹیکس دوبارہ متعارف کرانے اور جولائی سے پٹرولیم مصنوعات پرمرحلہ وار 50روپے فی لٹر لیوی لگانے پر اتفاق کیا گیاہے، اس معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کو بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھانا پڑیں گی ۔ایک لاکھ روپے تنخواہ لینے والوں پر دوبارہ ٹیکس کا نفاذ بجٹ کی نفی ہے، ابھی تو بجٹ کی منظوری ہی نہیں لی گئی کہ ضمنی بجٹ کے سلسلے شروع کر دئیے گئے ہیں،آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد حکومت پاکستان کو اب فنانس بل 2022ء سمیت نظر ثانی شدہ بجٹ پارلیمنٹ پیش کر کے اس کی منظوری لینا پڑے گی، یہ بجٹ اس ماہ کے آخر تک منظور بھی کروانا ہوگا تاکہ یکم جولائی سے اس کا نفاذ ہو سکے۔ مہنگائی کی کارستانیاں دیکھئے کہ ہر چیز کا ریٹ آسمان پر پہنچ چکا ہے، مقروض ملک مزید مقروض ہو رہا ہے،پاکستان میں رواں برس 11 اپریل سے لے کر 21جون تک روپے کے مقابلے میں ایک ڈالر کی قیمت میں ساڑھے 28 روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے، صرف 40 دن میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اس بے تحاشہ اضافے نے جہاں ملک کے ذمے قرضوں میں 3600 ارب کا اضافہ کیا وہیں مقامی صارفین کے لیے تیل، گیس ، بجلی اور کھانے پینے کی اشیا ء کو مہنگا کر دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کے اجلاس کے موقع پر کہا کہ مہنگائی کا دفاع نہیں کر سکتا، مزید مشکل فیصلے کرنا پڑے تو کریں گے، اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات ، بجلی اور گیس کی قیمتیں مزید بڑھائی جائیں گی اور مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ وزیر خزانہ کے بعد خود وزیر اعظم کے بیانات بھی حوصلہ افزا ہونے کے مقابلے میں مہنگائی کی چکی میں پسے غریب عوام کو مزیدخوفزدہ کرنے والے ہیں۔ ایک طرف مزید مشکل فیصلے کرنے بیانات دئیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف قوم سے مبارکبادیاں وصول کی جا رہی ہیں کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال لیا گیا ہے۔جب معاشی حالات ہی ٹھیک نہیں ہوں گے تو گرے لسٹ یا بلیک لسٹ میں ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا، دنیا کے بہت سے ایسے ملک ہیں جو گرے لسٹ میں موجود ہیں مگر ان کی معیشت ترقی کر رہی ہے، ان ملکوں میں ایران ، ترکی ، متحدہ عرب امارات اور شمالی کوریا وغیرہ شامل ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران خود ٹھیک نہیں ہیں، خصوصاً معیشت کے ارسطو معیشت کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں، یہی معاشی بیورو کریسی ہے جس نے معیشت تباہ کی اور پاکستان کو بلیک لسٹ کی طرف لے گئے۔ عجب بات ہے کہ اب مبارکبادیں بھی یہی وصول کر رہے ہیں، عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور امریکہ کا بھی نام لیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میںامریکہ نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کوایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں تین بار شامل کیا گیا ہے،پاکستان کو پہلی بار 28 فروری 2008 کو فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اہداف حاصل کرنے کیلئے پاکستان کو ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے کہا گیا تھا،تاہم جون 2010ء میں مثبت پیش رفت پر پاکستان کو فیٹف کی نگرانی کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا لیکن 16 فروری 2012 میں پاکستان کو دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور یہ 2015 ء تک اسی فہرست میں رہا، پاکستان کو تیسری بار 2018ء میں فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور تب سے اب تک یہ اسی فہرست میں ہے۔گزشتہ دنوں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے فیٹف کے صدر ڈاکٹر مارکوس پلیئر نے کہا کہ پاکستان نے اصلاحات کو نافذ کیا ہے جو کہ خود اس کے استحکام اور سلامتی کیلئے اچھا ہے، فیٹف کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 34 آئٹمز پر مبنی اپنے دو ایکشن پلان مکمل کر لیے ہیں، پاکستان کا دورہ کرکے شرائط کی تکمیل کی تصدیق کی جائیگی۔ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کسی بھی ملک کو ایکشن پلان کے تقریباً تمام اجزاء کو مکمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،ایک بار جب فیٹف یہ طے کر لیتا ہے کہ کسی ملک نے ایکشن پلان پر عملدرآمد کرلیا ہے تواس بات کی تصدیق کرنے کے لیے تنظیم کی ٹیم اس ملک کا تکنیکی جائزہ کرنے وہاں کا دورہ کرتی ہے جس کے بعد گرے لسٹ سے نکالے جانے کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے فیٹف اور سی ایف ٹی ایکشن پلان کی تکمیل بڑی کامیابی ہے۔ آرمی چیف نے مزید کہا کہ ایکشن پلان پر عمل سے پاکستان کی وائٹ لسٹ میں آنے کی راہ ہموار ہوئی، جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں قائم کور سیل اور قومی کوششوں سے یہ ممکن ہوا۔ آرمی چیف نے کہا کہ کور سیل کی کوششوں سے پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا، سول اور ملٹری ٹیم نے ایکشن پلان پر مضبوط عمل یقینی بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار بین الاقوامی سرمایہ کاری پر ہے، اگر پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں رہتا ہے، تو یہ اس کی درآمدات، برآمدات اور ترسیلات زر پر اثر انداز ہوتا رہے گا اور بین الاقوامی قرضوں تک اس کی رسائی کو محدود کر دے گا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکالے جانے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے نہیں گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری میں آسانی ہوگی اور ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، اس کے علاوہ پاکستان کو عالمی مارکیٹ تک رسائی آسان ہوجائے گی۔پاکستان کو اس وقت آزاد اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی سمیت خود مختار معاشی پالیسی کی ضرورت ہے، اس وقت نہ خارجہ پالیسی آزاد ہے اور نہ ہی پاکستان کو معاشی خودمختاری حاصل ہے، آخر کب تک پاکستان آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کی ’’غلامی‘‘ کرتا رہے گا۔ پاکستان کو عذابوں سے بچایا جائے ،ملک کو تجربات کی بٹھی نہ بنایا جائے اور غریب عوام کو تجربات کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے ان کو عالمی برادری میں عزت و انصاف کے ساتھ جینے کا حق دیا جائے۔