ایک برس پہلے، جس تصوف یونیورسٹی کا وزیر اعظم نے افتتاح کیا تھا، ابھی تک وہ چار زیر تعمیر کمروں کو محیط ہے۔ راہِ سلوک کے مسافر ایسے اور اس قدر لاابالی تو کبھی نہ تھے۔ امام شاذلیؒ کے باب میں اس طالب علم کا تجسس بھی وہی ہے جو برادرم نصرت جاوید کا۔ چند روز قبل ان کے نام پر پنجاب حکومت نے ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کا اعلان کیا ۔ امام کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں، اگرچہ ان کا شمار اس نورانی سلسلے کی چار عظیم شخصیات میں ہوتا ہے‘ سید الطائفہ جناب جنید بغدادی سے جس کا آغاز ہوا۔ برصغیر میں ان کا ذکر بھی کم ہوتا ہے‘اس لیے کہ ان کا دائرہ کار مغرب ہے‘ مراکش‘ تیونس اور الجزائر۔ اگرچہ بے حد اکرام اور احترام کے ساتھ۔ وہ پہلے آدمی ہیں، جن کے ہاتھ پر تربیت کی بیعت کی گئی۔ بعد میں آنے والوں نے ان کے علم اور انداز سے اکتساب فیض کیا۔ برصغیر میں شیخ ہجویر علی بن عثمانؒ کا رسوخ سب سے بڑھ کر ہے، آپ کی مشہور زمانہ کتاب کشف المحجوب سے تصوف کا کوئی طالب علم بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اس موضوع پر کوئی دوسری تصنیف اس کی ہم پلہ نہیں۔ درجنوں زبانوں میں تراجم ہو چکے اور یہ ایک ہمیشہ جاری رہنے والا سلسلہ ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کی مربوط عبارت ایک قادرالکلام شاعر کی غزل ایسی ہے، جس میں ایک لفظ کی کمی یا اضافہ ممکن نہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی ؒنے جو کہ خود ایک بلند مقام کے حامل تھے، کہا تھا:ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما۔ یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ جس کا کوئی مرشد نہیں، یہ کتاب اس کی رہنما ہے۔ ہمارے عصر رواں کے عارف پروفیسر احمد رفیق اختر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اسی کتاب کے اوراق سے اٹھے ہیں؛اگرچہ اس سے پہلے آٹھ برس تک وہ قرآن کریم میں محو رہے۔ اسی ہنگام، مغربی فلسفے کی تین صدیوں‘ احادیث ،سیرت اور تاریخ کا بھی اس انہماک سے مطالعہ کیا۔ پروفیسر صاحب ان خزائن کے براہِ راست مطالعے پر زور دیتے ہیں۔ ’’اندھوں کی طرح نہیں‘‘ ان کا اصرار رہا ہے کہ آنکھیں کھول کر ہرچیز کو دیکھاجائے۔ شاگردوں کو پیہم وہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ قرآنِ کریم انہیں جانوروں سے بھی بدتر قرار دیتا ہے، غور و فکر سے جو دستبردار ہو جائیں‘جو تقلید کے خوگرہوں‘ اسی لیے وہ مذہبی مکاتب فکر کے قائل بھی نہیں۔ یہی نہیں، وہ انتھروپالوجی اور فلکیات سمیت جدید علوم سے شناسائی پر بھی اتنا ہی اصرار کرتے ہیں۔ اس باب میں شیخ ہجویرؒ کا ایک قول اکثر دہراتے ہیں ’’تمام علوم سے کم از کم اتنا تو حاصل کر لو کہ اللہ کو پہچان سکو‘‘۔ اہل تصوف کیا ایک الگ مذہبی طبقہ ہیں۔ شاید اس موضوع پر شیخ ہجویرؒ کا ایک قول کافی ہے ’’پابند شریعت جو تصوف نہیں ہے، وہ زندیق تو پیدا کر سکتا ہے، صدیق نہیں‘‘۔ خود پروفیسر صاحب یہ کہتے ہیں، ’’طریقت دراصل شریعت کی نیت ہے‘‘ اس لیے کہ شریعت مقدم ہے ’’کم از کم زاد راہ‘‘ ان کا ایک اور مشہور قول یہ ہے کہ حقیت ازلی کی تلاش، اگر کسی کی اولین ترجیح نہیں، وہ کبھی منزل نہ پا سکے گا۔ ایک ممتاز امریکی پروفیسر نے ایک بار ان سے کہا، بیس برس میں خدا کو تلاش کرتا رہا، مگر وہ مجھے نہ مل سکا۔ آپ نے کیونکر اسے تلاش کر لیا۔ جواب یہ تھا: "Professer, God cannot be a by product of mathamatical and philosophical calculations- It must be the first priority of human curosity." ’’پروردگار، فلسفیانہ تلاش کی جزوی پیداوار نہیں ہو سکتا۔ اسے متلاشی کے تجسس کی اولین ترجیح ہونا چاہئے‘‘ چھبیس برس سے، میں انہیں تشکیک‘ الحاد ,شخصیت پرستی اور فرقہ پرستی کے ماروں سے بات کرتے دیکھ رہا ہوں۔ آج تک کوئی شخص ان کی محفل سے اس طرح نہیں اٹھاکہ اپنے نقطۂ نظر پر ازسرنوغور و فکر کے لیے آمادہ نہ ہو۔ غیر ملکی شامل ہیں، ان کے ہاتھ پر جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ انہیں قائل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ سادہ ترین الفاظ میں، مگر کمال یکسوئی اور یقین کے ساتھ اپنا مؤقف وہ پیش کرتے ہیں۔ کسی ذہن کو بدلتا ہوا پائیں تو اصرار کرتے ہیں کہ خود اسے سوچ بچار سے کام لینا چاہیے؛ حتیٰ کہ انشراحِ صدر ہو جائے۔ سوالات کرنے والے ناتراشیدہ اور کھردرے بھی ہوتے ہیں۔ شکوک و شبہات سے بھری آوازیں، رنج آلود اور شکوہ سنج۔ رنج اور برہمی تو بہت دور کی بات ہے نہایت تحمل سے فقیر ان کی بات سنتا رہتا ہے؛ حتیٰ کہ جواب کے لیے وہ خود آمادہ ہو جائیں۔ کبھی کسی محفل میں ماحول کو وہ ناخوشگوار ہونے نہیں دیتے۔ عجیب بات یہ ہے کہ درویش کو کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ اس کا فطری مزاج، ایک آہنگ میں ڈھلا، دائم آسودہ… یہی تصوف ہے۔ اسی کا نام فقر ہے۔ صوفی دین کا ٹھیکیدار نہیں بنتا۔ ڈراتا اور اندیشہ پیدا نہیں کرتا۔ بدگمان نہیں ہوتا۔ قوت حتیٰ کہ نفسیاتی دبائو کے استعمال کو بھی مکروہ سمجھتا ہے۔ اس کا طرزِ احساس یہ ہوتا ہے کہ اگر میں سچا ہوں تو مجھے کیا فکر کہ کوئی مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ میرا فرض خیر خواہی ہے، جس کا مجھے حکم ہے۔ تصوف کو کچھ لوگ متوازی دین کہتے ہیں۔ ایسوں کے بارے میں فقط وہ تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔ بالخصوص منکرین حدیث کے بارے میں۔ عجیب بات یہ ہے کہ کبھی مشکل آن پڑے تو ان میں سے بعض درویش کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ دوسروں کی طرح وہ بھی حسن سلوک کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ کل شب انہوں نے کہا فقط قرآن کریم پہ انہیں اصرار ہے، کیوں نہیں سمجھتے کہ ایک اعتبار سے قرآنِ کریم بھی حدیث ہی تو ہے۔ اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تو بتایا کرتے: یہ وحی ہے اور یہ میری بات۔ کیا اس عالی مرتبت کی ذات گرامی کے سوا بھی قرآن کریم پر کوئی شہادت موجود ہے؟ امام شاذلیؒ کا انداز بھی یہی تھا، نرمی، خیر خواہی، شفقت اور صبر و تحمل۔ صوفی ہوتا ہی وہ ہے، جو اپنی ذات کو خیر باد کہہ دے۔ اپنی انا کو دفن کر دے۔ جناب کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ ان سے ناخوش ہوئے۔ تنبیہہ کا سندیسہ لکھا، جواب میں سرکارؐ کا ایک قول مبارک انہوں نے ارسال کیا ،خلاصہ جس کا یہ ہے: قیامت کے بارے میں ایک شخص نے سرکار سے سوال کیا، آپ نے پوچھا:کیا بہت نوافل تم نے پڑھے ہیں، صدقات بہت دیئے ہیں، حج اور عمرے کیے؟ اس نے کہا حضور، اس قابل میں کبھی نہ تھا مگر آپ سے محبت کرتا ہوں، فرمایا: آدمی اس کے ساتھ اٹھایا جائے گا، جس سے وہ الفت رکھتا ہو۔ سخت گیر ابن تیمیہؒ نے اس پر چپ سادھ لی۔ گھل مل کر رہنے اور عام آدمی کی سی زندگی بسر کرنے پر امام شاذلیؒ اصرار کیا کرتے: صوفی کو کیا ہوا کہ بیوی بچوں کے ساتھ بازار نہیں جاتا ۔وہ کہتے ہیں: درویش کو کیا ہے کہ کوچہ و بازار اور خلقِ خدا سے گریزاں ہے۔ ربع صدی بیت گئی، پروفیسر صاحب کے سوا امام شاذلی کا نام تک کسی سے کبھی سنا نہیں۔ سرکار کو کیا سوجھی ہے، اس کی ترجیحات کیا ہیں، ورق الٹے اور کاروبار متشکل ہو تو کچھ عرض کیا جائے۔ ایک برس پہلے، جس تصوف یونیورسٹی کا وزیر اعظم نے افتتاح کیا تھا، ابھی تک وہ چار زیر تعمیر کمروں کو محیط ہے۔ راہِ سلوک کے مسافر ایسے اور اس قدر لاابالی تو کبھی نہ تھے۔