ابوحامد غزالی علیہ الرحمہ اسلام کے مشہورومعروف مفکر اور عالم تھے ۔آپ کا اسمِ گرامی’ محمد‘کنیت ’ابوحامد‘ اور لقب ’زین العابدین‘ تھا۔ آپ کی ولادت 450ھ میں نیشا پور سے تقریبا 48 کلو میٹر دور ایران کے ایک علاقہ طوس میں ہوئی۔ اس وقت طوس اور مشہد ایک ہی شہر بن چکا ہے ۔آپ حجۃ الاسلام، فقہاء کے امام ،زمانے کے مجتہد،عابدین و زاہدین میں شہرت یافتہ ،متکلم،صوفی،مصنف اور زمانے کے امام تھے ۔آپ کے والد سوت کاتنے کا کام کرتے تھے اور طوس میں اپنی دکان میں بیچتے تھے ۔ انہوں نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو اپنے ایک صوفی دوست کے ہاں تعلیم حاصل کرنے کی وصیت کی۔ ان سے حصول علم کے بعد حضرت غزالی امام الحرمین عبد الملک ضیاء الدین کے پاس حاضر ہوئے ۔ آپ نے قلیل مدت میں فقہ کا علم حاصل کیا۔ علم ِکلام وجدل میں مہارت حاصل کی اور آپ امام شافعی کے مذہب پر امام المناظرین بن گئے ۔ان کے استاد امام الحرمین کو آپ پرفخر تھا۔آپ مدرسہ بغداد میں مدرس کی حیثیت سے بھی مامور رہے ۔علوم ظاہری کی تدریس میں انہوں نے تقریباً تیس سال گزارے ۔ آخر کار اس میدان میں انہیں قلبی سکون نہ ملا اور ان کی تشفی نہ ہوئی تو488ھ میں انہوں نے بغداد چھوڑدیا اور تلاش حق میں نکل گئے ۔وہ زمانہ طالب علمی میں اساتذہ کی تشریحات و محاضرات لکھتے رہتے تھے ۔ایک سفر میں انہیں ڈاکہ پڑا اورآپ کے سارے نوٹس چھن گئے ۔انہوں نے ڈاکو سے کہا کہ کہ باقی ہر چیز لے لو مگر میری تحریریں واپس کر دو تو اس پر ڈاکو نے کہا کہ آپ نے کیا علم حاصل کیا کہ چند کاغذات اگر چھن گئے تو آپ علم سے خالی ہو گئے ۔ یہ طعنہ سننے پر انہوں نے کتابوں کی کتابیں اپنے حافظے میں محفوظ کر لیں۔آپ نے ابتدائی عمر سے ہی تصنیف وتالیف کا کام شروع کر دیا تھا۔آپ نے تفسیر،حدیث ، فقہ، اصول فقہ، تصوف واخلاق، منطق اورفلسفہ جیسے تمام موضوعات پر کتابیں لکھیں۔ ان کے علمی مقام اور تصنیفی خدمات کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مطالعہ بھی کرتے تھے اور مدرسہ نظامیہ میں درس وتدریس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اتنی کتابیں لکھیں کہ ان کی کتابوں کے صفحات کو اگر ان کے ایامِ حیات پر تقسیم کیا جائے تو ان کی زندگی کے ہر دن میں ان کی تحریر آٹھ صفحات پر مشتمل ثابت ہوتی ہے ۔ حسنِ مناظرہ اور فصاحت کی وجہ سے آپ کو علمی مجالس میں منفرد مقام حاصل تھا۔فلسفہ،علم الکلام وغیرہ جیسے علوم میں وہ ماہر تھے مگر ان کی زندگی میں ایک انقلاب آیا جس کے نتیجے میں ان علوم میں ان کی دلچسپی نہ رہی۔ آپ کی تصنیف ’’المنقذ من الضلال‘‘ میں آپ نے پوری روداد بیان کی ہے ۔ آپ نے ہر فرقے اور مذہب کا بہت گہرا مطالعہ کیا۔ حقیقت کی جستجو میں اولاََ تو محسوسات وعقلیات سے آپ کا اعتماد اٹھ گیا۔امام صاحب کے دل نے فلسفہ کو مقصود یا مقصود تک پہنچانے والا ذریعہ ماننے سے انکار کر دیا۔آپ نے اپنی مذکورہ تصنیف میں چار گروہوں کا ذکر کیا ہے ۔آپ نے متکلمین، باطنیہ ،فلاسفہ اور صوفیہ کا بالترتیب مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا۔بعد از مطالعہ وہ اس نتیجہ پہ پہنچے کہ علم الکلام ان کا علاج نہیں ہے ۔ باقی دو کے اندر آفات دیکھیں اور ان سے اپنا دامن چھڑا لیا۔سب سے آخر پہ تصوف کا مطالعہ کیا۔ اس موضوع پر آپ نے مستند اور بنیادی کتب کا گہرا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ تصوف صرف تعلیم و تعلم کا نام نہیں بلکہ اس کا تعلق ذوق اور وجدان سے ہے ۔ اخروی سعادت اور کامیابی کے حصول کے لیے تقویٰ لازم ہے اور نفسانی خواہشات کا ترک ضروری ہے ۔ تصوف ہی وہ رستہ ہے کہ جس پر گامزن ہو کر مقصود تک پہنچا جا سکتا ہے ۔ اس کے لیے حُبِّ جاہ و حشمت سے جان چھڑانا شرط ہے ۔اپنے مجاہدات وریاضات کا تذکرہ کرنے کے بعد کہا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ صوفیا کا گروہ ہی خالصتاََ اللہ کی راہ میں گامزن ہے ۔ امام صاحب کی جستجو کے طویل سفر سے ان کے روحانی مقام کا اندازہ ہوتا ہے ۔ سالہاسال درس وتدریس میں مصروف رہنے والے ایک عظیم عالم کے فکری اور تحقیقی مطالعہ کا ماحصل یہ تھا کہ تصوف ہی اخروی کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے ۔آج کسی کے علمی مقام کے بیان کے لیے اسے ’غزالی ٔ زماں‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے ۔ آپ صاحب اشارات وکرامات تھے ۔کئی ممالک کا سفر کیا اور صوفیا کی خدمت میں رہے ۔ آپ یکسر انقطاع اور خلوت نشینی کی طرف مائل ہو گئے ۔آپ کایہ قول آپ کے توکل کا آئینہ دار ہے کہ’’ جس کا جو کچھ اللہ کے لیے چلا گیا تو اس کا بدل اللہ کے ذمے ہے ۔‘‘آپ کے عجز وانکسار کا اندازہ آپ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ’’میں وعظ کرنے کا اہل نہیں کیوں کہ وعظ ایک زکوٰۃ ہے اور اس کا نصاب نصیحت پکڑنا ہے تو جو صاحب ِنصاب نہیں وہ زکوٰۃ کیسے نکالے ۔‘‘ آپ نے باقاعدہ ایک روحانی خانقاہ کی بنیاد رکھی اور خلوت نشینی کی طرف مائل ہوکر سفرآخرت کے زاد کے حصول میں مگن ہو گئے ۔ دمشق میں کافی مدت گزاری اور وہیں پر احیاء علوم الدین،اربعین،قسطاس،محک النظر وغیرہ کتب تصنیف کیں۔آپ مجاہدہ نفس،باطنی اصلاح اور اخلاقی انقلاب کی راہ پرچلے اورتفکر میں مشغول ہوئے ۔ قلبی امراض سے اپنی ذات کو پاک کیا۔راہ سلوک پہ چلنے کے لیے آپ حضرت ابو علی فارمدی کی صحبت اختیار کرتے ہوئے ذکر اذکار اور اشغال میں مصروف ہو گئے ۔دنیا سے بے رغبت ہو کر خشیتِ الہیہ سے سرشار ہو کر زندگی گزارنے لگے ۔ ان کے علمی اور روحانی مقام کو سمجھنے کے لیے ان کی تصانیف میں سے متعدد جلدوں پر مشتمل احیا ء علوم الدین بہترین کتاب ہے ۔ جس میں عبادات، طہارت، ارکان اسلام ، آداب ِتلاوت قرآن ، اذکار ، حلال و حرام کا بیان، اخوت وصحبت،خلوت نشینی،آدابِ سفر اور نیکی کی دعوت اور بدی کی ممانعت کا بیان کیا۔اخلاق رذیلہ کے نقصانات کی طرف توجہ دلائی۔ اخلاق حسنہ کے زمرے میں توبہ،صبر وشکر، رجاء وخوف، فقر وزہد،توحید وتوکل،محبت وشوق،نیت واخلاص ،محاسبہ اور تفکر کے فوائد وثمرات بیان کئے ۔ وہ نہ صرف قلبی آفات وامراض کو جانتے تھے بلکہ ان روحانی بیماریوں کے ماہر طبیب بھی تھے ۔آپ ان قلبی اور روحانی امراض سے اپنا دل سلامت لے کر دنیا سے گئے ۔علم وعرفان کے اس درخشاں ستارے کا وصال 14 جمادی الثانی 505ھ میں ہوا، آپ کا مزار اپنے وطن طوس ہی میں مرجع خلائق ہے ۔