اہل بیت کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا شرف جس ہستی کو حاصل ہے اس کی عظمت و شرف کا اندازہ لگانا مشکل ہے انہی نفوس قدسیہ سے ایک عظیم ہستی حضرت امام علی رضا بن موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کی بھی ہے آپ علم وفضل اور زہد و تقویٰ کا کوہ گراں تھے آپ آٹھویں امام ہیں آپ کی نسبت ’’ابوالحسن‘‘ہے آپ کا لقب ’’رضا ‘‘ہے ۔ شواہد النبوت علامہ عبدالرحمن جامی کے مطابق آپ کی ولادت مدینہ منورہ میں153ھ میں ہوئی جبکہ صاحب نور الابصار شیخ مومن بن حسن مون شبلنجی کے مطابق 148ھ میں ہوئی آپ کی والدہ ام ولد تھیں جن کو ام البنین کہا جاتا ہے ۔ اورآپ کے القاب صابر ،زکی اور ولی ہیں سب سے مشہور لقب رضا ہے ۔ سیدنا حضرت امام علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا روایت حدیث میں مقام و مرتبہ ’’تاریخ نیشا پور ‘‘میں ذکر کیا کہ حضرت علی رضا بن موسیٰ کاظم علیہماالسلام جب نیشا پور میں تشریف لے گئے تو نیشا پور داخل ہوتے وقت سفید رنگ کی خچر پر سوار قبہ میں مستور تھے ۔ آپ کے پاس امام حافظ ابو زرعہ اور امام حافظ ابو مسلم طوسی آئے ،جب کہ ان کے ساتھ علماء اور محدثین کی بھاری تعداد تھی ،دونوں حفاظ نے عرض کیا اے جلیل القدر سید سادات آئمہ کرام کے صاحبزادے اپنے آبائو اجداد اطہارر کا واسطہ ہمیں اپنا مبارک چہرہ دکھائیں اوراپنے آبائو اجداد سے منقول حدیث روایت فرمائیں۔جس کے باعث ہم آپ کو یاد کرتے رہا کریں۔حضرت نے خادموں کو ٹھہرنے کو فرمایا اور چھتری اٹھانے کا حکم دیا ،جس نے آپ پر پردہ کیا ہوا تھا اور اپنے چہرہ انور کی رؤیت سے مخلوقات کی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔آپ کے دو گیسوکندھوں پر لٹک رہے تھے اور لوگ اپنے درجات کے لحاظ سے کھڑے آپ کو دیکھ رہے تھے ۔ بعض چیخ و پکار کر رہے تھے اور مٹی میں لیٹ رہے تھے ۔اور بعض آپ کے خچر کے پائوں کو بوسے دے رہے تھے وہاں آہ و بکا سے میدان گونج رہا تھا فضا محشر کا سماں ظاہر کر رہی تھی۔حضرات علماو ائمہ نے بلند آواز سے لوگوں کو پکارا اور کہا لوگو!خاموش ہو جائو اوراپنے نفع کی بات سنو ،رونے چلانے اور شورو غوغا سے اذیت نہ پہنچائو۔ ابو زرعہ اور محمد بن مسلم طوسی حدیث لکھوانا چاہتے تھے ۔سیدناامام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا مجھے میرے باپ موسیٰ کاظم نے اپنے والد جعفر صادق سے انہوں نے اپنے والدمحمد باقر سے انھوں نے اپنے والد علی زین العابدین سے انھوں نے اپنے والد شہید کربلا سے انھوں نے اپنے والد علی المرتضی علیہ السلام سے خبر دی انھوں نے کہا مجھے میرے حبیب آنکھوں کی ٹھنڈک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی۔آپ نے فرمایا مجھے جبرائیل علیہ السلام نے خبر دی ۔اس نے کہا مجھے رب العزت سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ۔کلمہ لا الہ الااللہ میرا قلعہ ہے ۔ جو شخص یہ کلمہ کہے گا وہ میرے قلعہ میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا۔پھر آپ نے چھتری پر پردہ لٹکا دیا اور سفر جاری کیا ۔جو اہل قلم اور اہل دیوان یہ حدیث لکھ رہے تھے انھیں شمار کیا گیا تو وہ بیس ہزار سے زیادہ تھے سیدنا امام علی رضاعلیہ السلام نے فرمایا اگر یہ اسناد مجنون پر پڑھا جائے تو اس کو جنون سے آفاقہ اور آرام آجائے گا ۔ ابو القاسم قشیری رضی اللہ عنہ نے کہا اس سند کے ساتھ یہ حدیث بعض امراء سامانیہ کو پہنچی ۔اس نے اس کو سونے سے لکھا اور وصیت کی کہ اسے اس کی قبر میں اس کے ساتھ دفن کیا جائے ۔چنانچہ فوت ہونے کے بعد اسے نیند میں دیکھا گیا اور پوچھا گیا اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا برتائو کیا ہے ۔اس نے کہا کلمہ لا الہ الااللہ پڑھنے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کرنے کے باعث اللہ تعالیٰ نے میری مغفرت کر دی ۔ امام مناوی نے جامع صغیر و غیرہ پر اپنی شرح کبیر میں اسے ذکر کیا ہے ۔سیدی علی رضا بن موسیٰ کاظم علیہما السلام اپنے آبائو اجداد سے انھوں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی آپ نے فرمایا جو شخص میرے حوض پر ایمان نہیں رکھتا۔اللہ تعالیٰ اس کو میری شفاعت سے محروم رکھے گا پھر فرمایا میری شفاعت میر ی امت کے بڑے بڑے گناہ گاروں کیلئے ہوگی اور مخلص اور نیک کو کوئی تکلیف نہ ہو گی ۔ سیدناامام علی رضا بن موسیٰ کاظم علیہما السلام نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل ہونے کی وجہ سے رجب کا پہلا روزہ رکھے اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔جو اس کے درمیان والے دن میں روزہ سے ہو تو قبیلہ ربیعہ اور مضر کے افراد کے برابر لوگوں کی شفاعت کرے گا جو قبول ہوگی اور جو اس کے آخری دن میں روزہ دار ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے فرشتوں میں کرے گا ۔اور اس کی ماں ،باپ ، بھائی،چچے ، پھوپھیاں، ماموں، خالائیں،دوستوں اور ہمسایہ داروں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کرے گے ۔اگرچہ ان میں ایسے لوگ بھی ہونگے جن پر دوزخ کا عذاب ضروری ہو گیا ہوگا صاحب ’’کتاب نثر الدرد‘‘نے کہا کہ فضل بن سہل نے سیدنا علی رضا بن موسیٰ کاظم علیہماالسلام سے مامون کی مجلس میں سوال کیا اور کہا یا اباالحسن !لوگ مجبور ہیں ۔آپ نے فرمایا ۔اللہ تعالیٰ کو مجبور کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔وہ انصاف کرے گا ۔پھر عذاب دے گا۔سائل نے کہا لوگ آزاد کر دیئے جائیں گے ۔آپ نے فرمایا اللہ بہت بڑا حاکم ہے وہ اپنے بندہ کو مہمل نہیں کرے گا کہ اس کو اس کے نفس کے حوالہ کر دے ۔ابو الحسن قرضی نے اپنے باپ سے روایت کی انھوں نے کہا ہم ابو الحسن علی رضا علیہ السلام کی مجلس میں تھے ایک شخص آیا اور اپنے بھائی کی شکایت کی تو سیدناامام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:’’اپنے بھائی کو اس کے گناہوں پر معذورجانواور صبر کرو اور اس کے عیوب کوپردہ میں رکھو بے وقوف کی بے وقوفی پر صبر کرو اورزمانہ کو اس کے حوادثات پر تفضل اورمہربانی کرکے جواب چھوڑو اور ظالم کو اس کا حساب کرنے والے کے حوالے کر و۔‘‘(نو ر الابصار،شیخ مومن بن حسن مومن شبلنجی) اللہ تعالیٰ ہمیں خانوادۂ اہل بیت کے ہر فرد کی عزت و تکریم اور ان سے محبت وعقیدت کی توفیق بخشے اور ان ہستیوں کی سیرت وکردار کو اپنائے ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے سے ملک وقوم کی خیرفرمائے ۔(آمین)