اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جائیداد نیلام کرنے کا حکم دِیا ہے ۔ جج محمد بشیر صاحب نے صوبائی ( پنجاب) حکومت کو اختیار دِیا ہے کہ ’’ وہ ملزم اسحاق ڈار کی جائیداد فوری طور پر اپنے قبضے میں لے کر نیلام کرے یا اپنے پاس رکھے !‘‘ ۔ ملزم اسحاق ڈار کی جائیداد کی تفصیل میڈیا پر آ چکی ہے ۔ احتساب عدالت کے حکم کا ڈار صاحب نے بہت برا منایا ہے ۔ پرسوں ( 2 اکتوبر کو ) لندن میں ایک نجی پاکستانی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہُوئے اُنہوں نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا نام لئے بغیر کہا کہ ’’ آمر کے گھر کو "Deseal" کرایا جا رہا ہے لیکن میرے اثاثے نیلام کئے جا رہے ہیں!‘‘۔( شاید ڈار صاحب پاکستانی عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں )کہ ’’ اُن کی جائیداد کو اِس لئے نیلام کِیا جا رہا ہے کہ ’’ وہ آمریت کے خلاف ’’جمہوریت کے علمبردار‘‘ رہے ہیں ؟‘‘ ۔

ملزم اسحاق ڈار نے کہا کہ ’’ مَیں لندن میں خوشی سے نہیں بیٹھا اور نہ ہی یہاں (لندن میں ) جھوٹی رپوٹیں بنتی ہیں ۔ (شاید اُن کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان میں جھوٹی رپورٹیں بنتی ہیں)۔ ڈار صاحب نے کہا کہ ’’ مَیں بیمار ہُوں، میرا ہر روز چیک اَپ ؔہوتا ہے ۔ مَیں میڈیکل ایڈوائس پر چلوں گا اور جب مجھے میری صحت اجازت دے گی تو مَیں وطن آپس آجائوں گا‘‘۔ ڈار صاحب کا کمال یہ کہ اُنہوں نے کہا ’’ میری ساری جائیداد اللہ تعالیٰ کی امانت ہے ۔ میرا جو کرنا ہے کرلیں !‘‘۔ معزز قارئین!۔ اسحاق ڈار بیمار تھے (اور بقول اُن کے ) اب بھی نہ صِرف بیمار بلکہ چاروناؔچار ( مجبوری کی حالت میں ) لندن میں رہ رہے ہیں اور وطن واپس آنے سے لاچار ؔ بھی ہیں لیکن ہیں بہت جرأت مند؟۔ اُن کا یہ دعویٰ بھی خوب ہے کہ ’’ میری جائیداد اللہ تعالیٰ کی امانت ہے‘‘ اور اُس کے بعد اُن کا ( احتساب عدالت یا حکومت کو ) یہ چیلنج بھی جرأت ہی کی علامت ہے کہ میرا جس نے جو کرنا ہے کر لے؟‘‘۔

فارسی زبان کے کسی بزرگ شاعر نے کسی نیک دِل بادشاہ ( حکمران) کی طرف سے اپنی رعایا (عوام) کو متاثر کرنے کے لئے کہا تھا کہ …

درحقیقت مالِک ہر شے خُداست!

اِیں امانت چند روزہ نزد ماست!

یعنی۔ ’’ ہر چیز کے مالک اللہ تعالیٰ ہیں اور میرے پاس یہ ( تاج و تخت اور مال و دولت‘‘ اللہ تعالیٰ کی امانت ؔہے‘‘۔ ڈار صاحب اپنی گفتگو میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ’’ اُن کے ، اُن کی اہلیہ ( اور شاید بچوں کے پاس بھی ) جو بھی جائیداد ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں امانت ؔ کے طور پر عطا فرمائی تھی اور اب احتساب عدالت نے اُن سے اللہ تعالیٰ کی امانت اپنے قبضے میں کرنے کی کوشش کی ہے!‘‘ ۔ امانت ؔکے بارے میں علاّمہ اقبال نے قیام پاکستان سے بہت پہلے اپنے ’’ ترانہ مِلّی ‘‘ میں اِسلامیانِ ہند کی طرف سے ہندوستان کی انگریز حکومت ہندوئوں اور اُن کے ایجنٹوں ( کانگریسی مولویوں) سے مخاطب ہو کرکہا تھا کہ … 

توحید کی امانت ؔ سِینوں میں ہے ہمارے!

آساں نہیں مِٹانا نا م و نشاں ہمارا!

علاّمہ صاحب نے ’’ سِینوں میں توحید کی امانت‘‘ امانت دار مسلمانوں کی طرف سے انگریز حکومت اور ہندوئوں اور اُن کے مسلمان ایجنٹوں کو بھی یہی سمجھایا تھا کہ ’’ تُم ہمارا کر لو جو کرنا ہے‘‘۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں5 جون 2013ء کو میاں نواز شریف نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی اور پھر اُن کی کابینہ میں دوسرے ارکان کے ساتھ اسحاق ڈار بھی بحیثیت وزیرخزانہ شامل ہُوئے۔ 8 جون کو راولپنڈی میں منعقدہ ’’ عالمی میلاد کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے اسحاق ڈار صاحب نے کہا تھا کہ ’’ مجھے حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویریؒ نے لاہور سے "On  Deputation" وزیر خزانہ بنا کر اسلام آباد بھجوایا ہے! ‘‘۔ 

10 جون کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں ، مَیں نے اپنے کالم میں لِکھا تھا کہ ’’ اگر ڈار صاحب کا یہ دعویٰ درست ہے کہ اُنہیں ’’حضرت داتا گنج بخش صاحبؒ نے اپنے نمائندے کی حیثیت سے وزیر خزانہ پاکستان بنوایا ہے تو مجھے یقین ہے کہ  جِس طرح لاہور میں مخیر مسلمانوں کی طرف سے بے روزگاروں اور بھوکوں کے لئے ہر روز اور ہر وقت دربار داتا صاحب لاہور میں مفت کھانا فراہم کِیا جاتا ہے اُسی طرح وزیر خزانہ کی حیثیت سے اسحاق ڈار بھی پاکستان کے ہر ضلع، ہر شہر، ہر تحصیل اور ہر گائوں میں بے روزگاروں اور بھوکوں کے لئے لنگر کا انتظام کردیں گے!‘‘ لیکن معزز قارئین !۔ میری امیدیں تو خاک میں ہی مِل گئیں ۔ اسحاق ڈار صاحب نے محض اپنی ٹہورؔ بنانے کے لئے داتا صاحبؒ کے نام سے ’’کذب بیانی ‘‘ کی تھی ۔ پھر کیا ہُوا ۔ معاشیات کے ماہرین نے ثابت کردِیا کہ ’’صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں ملک کے 40 فی صد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے ۔ صدر آصف علی زرداری کے دَور میں اُن کی تعداد 50 فی صد اور وزیراعظم نواز شریف کے دَور میں اُن کی تعداد 60 فی صدہو گئی ہے!‘‘ ۔

اسحاق ڈار کی ترقی کا سفر ’’ اتفاق گروپ آف انڈسٹریز‘‘ کی ملازمت سے شروع ہُوا۔ پھر اُن کی میاں نواز شریف سے ’’گوڑھی یاری ‘‘ ہوگئی ۔پھر میاں صاحب نے اپنی چھوٹی بیٹی اسماء نواز کی اسحاق ڈار صاحب کے بیٹے علی ڈار سے شادی کردِی اور پھر چل سو چل!۔ اسحاق ڈار صاحب کی طرف سے میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے ایک بار کہا تھا کہ …

ایہہ نہ سمجھو میری اونہادِی

سُکّی پِھکّی یاری جی!

ربّ سوہنے نے آپ بنائی

ساڈی کُڑما چاری جی!

معزز قارئین!۔ پنجابی میں سمبندھی ؔ کو کُڑم ؔکہتے ہیں۔5مئی 2014ء کو ’’ قازقستان‘‘ کے شہر آستانہ میں ’’ ایشیائی ترقیاتی بنک ‘‘ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے اسحاق ڈار نے اعتراف کِیا تھا کہ ’’ پاکستان میں مہنگائی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے ‘‘۔ اُنہوں نے اپنے ہم منصب وزرائے خزانہ کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ ’’ غُربت ؔکی نئے سرے سے تعریف ؔ کی جائے!‘‘ ممکن ہے ڈار صاحب نے لفظ "Definition" استعمال کِیا ہو لیکن اردو اخبارات نے "Praise" ( تعریف و توصیف ) کے معنی لئے۔

بعد ازاں 6 فروری 2016ء کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے ڈار صاحب نے  حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں کو "Mean Politics" (گھٹیا سیاست) سے منع کرتے ہُوئے انگریزی زبان میں کہا تھا کہ ’’We Requst the Opposition not to Plunge into Mean Politics" ۔ اِس پر حزبِ اختلاف کے کئی سیاستدانوں نے جناب ڈار کی بہت خبر لی۔ 8 فروری کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ "Ishaq Dar on Mean Politic" ۔ مَیں نے لِکھا کہ ’’ اردو شاعری میں اِس مضمون کو بڑی ملائمت سے بیان کِیا گیا ہے جیسے…

اے شیخ! گفتگو تو شریفانہ چاہیے!

مصرعے میں آپ شیخ کے بجائے ڈار ؔجڑ کر یوں کہہ سکتے ہیں کہ … 

اے ڈارؔ گفتگو تو شریفانہ چاہیے!

اُس وقت تواسحاق ڈار صاحب لندن کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیر علاج تھے اور اُن کے ’’اکائونٹس بھی منجمد‘‘ کردئیے گئے تھے ، جب 3 نومبر 2017ء کو ’’ ملامتی صوفی‘‘ اسحاق ڈار کے عنوان سے میرا کالم شائع ہُوا، مَیں نے لِکھا  کہ ’’ میاں نواز شریف ، اُن کی اولاد اور داماد ِ(اوّل) کی اتنی رُسوائی نہیں ہوئی جتنی اسحاق ڈار صاحب کی ہُوئی ۔ تصّوفؔ کی اصطلاح کے مطابق میری نظر میں اسحاق ڈار کو ملامتی صوؔفی کہا جاسکتا ہے ‘‘۔ اِس پر میرے کئی قارئین نے ٹیلی فون پر میری ’’ جواب طلبی ‘‘ کی اور کہا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ یہ آپ نے کیا غضب کردِیا؟۔ کہاں ملامتی صُوفی اور کہاں اسحاق ڈار ۔ کہاں راجا بھوج اور کہاں گنگوا تیلی؟۔ ملامتی صوؔفی تو اپنی عبادت چھپانے کی کوشش اور اسرار الٰہی ظاہر کرتا ہے!‘‘۔ میرے ایک قاری نے تو ملامتی صوفیوں کے حق میں میں علامہ اقبالؒ کا یہ مصرعہ بھی مجھے سُنایا تھا کہ … 

ملامت کر نہ اِن کو پِیت کی رِیتیں نرالی ہیں!