مولانا فضل الرحمن کا دھرنا گرجتے گونجتے سونامی کی طرح اسلام آباد داخل ہوا۔ دارا و سکندر کے لشکر کی طرح چودہ روز اپنی جگہ جما رہا اور پھر بادنسیم کے بے آواز جھونکے کی طرح پلٹ گیا ع کہ دھرنا بود رسیدہ ولے بخیر گزشت ایک طرف اتنا بڑا ہجوم حکومت کو پورے چودہ روز تک ڈراتا سہماتا رہا تو دوسری طرف باخبر ذرائع نے عوام کو دہلائے رکھا کہ خونیں تصادم اب ہوا کہ تب ہوا۔ ’’اندر‘‘ تک رسائی کا دعویٰ رکھنے والے یہ ’’ذرائع‘‘ ایمان کامل کے ساتھ یہ اطلاع دیتے رہے کہ مولانا ڈی چوک پر جا کر رہیں گے۔ اصل تماشا اس کے بعد شروع ہو گا۔کچھ احباب نے پرمسرت تماشے کے لئے اپنی سانسیں روک لیں اور گھڑیاں گننا شروع کر دیں۔ لیکن افسوس کہ مولانا نے اچانک واپسی کی راہ لی۔ ذرائع تکتے رہ گئے۔ احباب کی آس امید کے محل ڈھے گئے۔ اور تو اور حکومت کو اپنے کانوں پر یقین آیا نہ آنکھوں پر۔ تین دن کے بعد کہیں جا کر اسے اعتبار ہوا کہ ہاں واقعی دھرنا چلا گیا ہے۔ چنانچہ دھرنا گاہ کے سنسان ہونے کے تین روز بعد اسلام آباد سے رکاوٹیں ہٹائیں۔ خود وزیر نے یہ بیان تین دن تک پوری تسلی‘ پورا اطمینان کرنے کے بعد جاری فرمایا کہ دھرنے کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ دھرنے میں البتہ ہوا تھی ہی نہیں ہوا عبارت ہے۔ ورائٹی شو سے‘ رقص میں ہے سارا جہاں کے سماں سے یہ دونوں چیزیں مولانا کے دھرنے میں اشجار ممنوعہ تھیں۔ ان کی جگہ تلاوت تھی اور باجماعت نمازیں۔ بیچ میں مولانا آ رہا ہے کے نغمے اور گرجدار تقریریں۔ارباب حکومت کا چودہ روزہ عرصہ دہشت بالآخر ختم ہوا اور مولانا کا آزادی مارچ اپنے گھر عازم ہوا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جاتے ہوئے قافلے یہ نغمہ بدستور بجا رہے تھے کہ ’’مولانا آ رہا ہے‘‘ ٭٭٭٭٭ دھرنے کا بنیادی مقصد استعفی لینا تھا۔ مولانا کا بارہا کا اعلان بھی یہی تھا کہ استعفیٰ لے کر ہی جائوں گا۔ استعفیٰ تو نہیں ملا لیکن مولانا خالی ہاتھ نہیں لوٹے۔ برادران گجرات نے ایک ’’امانت‘‘ ان کے سپرد کی ہے۔امانت کے اس گفٹ بکس میںکیا ہے؟ کسی کو نہیں پتہ۔ برادران گجرات نے بھی یہی بتایا کہ انہوں نے امانت مولانا کے حوالے کی ہے۔انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ امانت انہوں نے اپنی طرف سے دی ہے یا کسی اور نے یہ امانت ان کے ذریعے مولانا تک پہنچائی ہے۔ یعنی ان کا کردار بااعتماد کورئیر سروس کا ہے۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ اس ڈبہ امانت میں ساری اپوزیشن کے لئے کچھ نہ کچھ ہے اور کہا جا رہا ہے کہ آٹھ دس ہفتے میں یہ ڈبہ کھل جائے گا۔ ڈبہ کھلے گا اور منظر بدل جائے گا۔ خبر ہے کہ منظر نامہ لکھنے والوں نے نیا منظر نامہ لکھ لیا ہے۔ پہلا منظر نامہ پٹ گیا ہے اور دعویٰ ہے کہ نقش ثانی‘ نقش اول سے بہتر ہو گا۔ واللہ اعلم یا پھر منظر نویس جانیں۔ ٭٭٭٭٭ چلیے ڈبہ جب کھلے گا تو دیکھ لیں گے لیکن کچھ ضمنی نتائج تو پہلے ہی آ چکے ہیں۔ سرفہرست نتیجہ یہ ہے کہ مہنگائی کم ہونے لگی ہے۔ جی ہاں اور شروعات ٹماٹر سے ہوئی ہے۔ دھرنے سے پہلے اور اس کے دوران ٹماٹر کی قیمت تین سو روپے کلو ہو گئی تھی بلکہ اخبارات کے مطابق کہیںکہیں پر تو اس سے بھی زیادہ قیمت پر بک رہا تھا۔ دھرنا ختم ہوتے ہی ٹماٹر اڑھائی سو روپے کلو ہو گیا یعنی پورے پچاس روپے کا ریلیف۔ آپ اس سستائی کا کریڈٹ مولانا کو اور ان کے دھرنے کو نہ دینا چاہیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ آپ یہ کریڈٹ عمران خاں اور ان کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کو دے سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ٹماٹر کی گرانی کے دوران ایک لطیفہ خود ہمارے ساتھ ہو گیا۔ جان پہچان والے سبزی فروش سے رعایت کرنے کو کہا تو بولا‘آپ کی خاطر میں ریٹ کم کر دیتا ہوں۔ کسی اور کو مت بتائیے گا۔ آپ دو سو پچانوے روپے دے دیں۔ یعنی پورے پانچ روپے کی رعایت۔ عرض کیا ایک پائو تول دو۔ خدشہ تھا کہ ایک پائو پر وہ اپنی رعایت واپس نہ لے لے لیکن مرد معقول تھا۔ اپنی زبان پر قائم رہا اورپائو بھر ٹماٹر تول دیے۔ مسئلہ رعایت وصول کرنے کے مرحلے پر بنا۔ ایک پائو پر رعایت سوا روپیہ یعنی ایک روپیہ پچیس پیسے بنی۔ یعنی اسے ہم نے تہتر روپے پچھتر پیسے دیے تھے۔ اب روپے کا سکہ ہے نہ پیسے کا۔ پانچ روپے کا سکہ بنیادی اکائی ہے وہ بھی کم کم نظر آتی ہے۔ مشکل دکاندار نے حل کی۔ اور اندازے سے ایک روپے پچیس پیسے کا دھنیا جو مبلغ چھ سات پتیوں پر مشتمل تھا‘ ہمیں دے کر اس نے پورے پچھتر روپے وصول کر لئے۔ یعنی ٹماٹر پورے داموں‘ البتہ چھ سات پتیاں دھنیا مفت، ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ روپیہ اوپر جا رہا ہے بات سمجھ میں نہیں آئی۔ چنانچہ سمجھنے کے لئے غور و فکر کرنا پڑا۔ تفصیلی غورو خوض کے بعد پتہ چلا کہ ڈالر جو ایک سو روپے سے اٹھ کر ایک سو ساٹھ روپے تک جا پہنچا تھا اور اس کے بعد تھوڑا واپس آ کر ایک سو پچپن چھپن روپے پر گیا ہے۔ وزیر اعظم نے اسی کو روپے کے اوپر جانے سے تعبیر کیا ہے۔ وزیر اعظم کے منہ میں گھی شکر۔ خود پر افسوس ہوا کہ اتنی ذرا سی بات سمجھنے کے لئے اتنا غور کرنا پڑا۔ ٭٭٭٭٭ نواز شریف کی تشویش ناک صحت اور علاج کے لئے باہر جانے کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ رشید نے فرمایا ہے کہ آدمی لندن جائے یا کہیں اور‘ موت کا فرشتہ فائل لئے موجود رہتا ہے۔ یہ عرفانی نکتہ بیان کرتے ہوئے شیخ جی دل ہی میں کیا گنگنا رہے ہوں گے؟ یہی کہ ع لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری شیخ صاحب پہلے بھی اظہار تمنا یوں کر چکے ہیں کہ جیل سے تابوت ہی نکلے گا۔