اندرون اور بیرون ملک سے پرجوش قارئین فون کالز اور ای میلز کے ذریعے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کیا ہے؟ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ پالیسی کا مجھے علم نہیں البتہ یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آل پارٹیز حریت کانفرنس کی تحریک آزادی کو ہندوستان دبا سکتا ہے اور نہ پاکستان چھوڑ سکتاہے۔ پاکستانی اور کشمیری عوام حکومت پاکستان سے بڑے عملی اقدامات کی توقعات باندھے ہوئے ہیں۔ ابھی تک پاکستان دنیا کو اپنا ایک سافٹ امیج اور اپنی امن پسندی اور قانون پسندی کا تاثر دے رہا ہے۔ توقع کے بارے میں ہم تو اسد اللہ غالب کے پیرو کار ہیں، اس لئے فرانس میں ٹرمپ مودی ملاقات کا جو منفی نتیجہ سامنے آیا، اس سے ہمیں مایوسی نہیں کیونکہ ہمیں تو ٹرمپ سے کوئی توقع ہی نہ تھی۔بقول غالب: جب توقع ہی اٹھ گئی غالب کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی مگر ہمارے وزیر اعظم عمران خان اور ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فرانس میں جی سیون اجلاس سے بہت سی توقعات باندھ رکھی تھیں اور انہیں امید واثق تھی کہ ٹرمپ فرانس میں ’’ڈانٹ ڈپٹ‘‘ سے نہ سہی کم از کم عجزو نیاز سے مودی سے کشمیریوں پر جاری ہولناک کرفیو میں کچھ نرمی ضرور کروا لے گا۔ مگر یہ دیکھ کر یقینا خاں صاحب کو مایوسی ہوئی ہو گی کہ ثالثی تو دور کی بات مگر جب مودی بات بے بات ہاتھ پر ہاتھ مار کر یوں ٹھٹھے لگاتے رہے اور انہوں نے مظلوم کشمیریوں کے لئے کوئی قدم نہ اٹھایا۔ دنیا اور کشمیریوں کی نظر میں یوں بنیادی انسانی حقوق کا چمپئن اپنے پہلے امتحان میں ناکام ہوا ہے۔ تین چار روز پہلے ایک نجی نشست میں دو کشمیری خواتین سے ملاقات کا موقع ملا۔ دونوں کا تعلق سری نگر سے ہے۔ ان میں سے ایک میڈیکل کی طالبہ تھی اس نے گفتگو کا آغاز کیا تو اس کی ہچکی بندھ گئی۔ دوسری خاتون جو کئی برس سے پاکستان میں مقیم ہے، نے مختلف نیم مصدقہ ذرائع سے سری نگر کی دل دہلا دینے والی خبریں دیں، مجھ میں بتانے کا حوصلہ ہے نہ آپ میں سننے کا یارا۔ مختصر یہ کہ بھارتی فوج راتوں کو دس دس بارہ بارہ سال کے بچوں کو گن پوائنٹ پر اٹھا کر لے جاتی ہے اور خواتین کی بے حرمتی کرتی ہے۔ خاتون نے نہایت گلو گیر لہجے میں کہا کہ کشمیری سوال کرتے ہیں کہ ہمارے پاکستانی اور ہمارے مسلمان بھائی کہاں ہیں؟ اس وقت جاں بلب کشمیری ہم سے بڑے عملی اقدامات کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ مگر ہم بڑے اقدامات تو کجا بڑے بیانات بھی نہیں دے رہے۔’’ہم کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ مودی کشمیریوں کی نسل کشی پر تلا بیٹھا ہے۔ اگر کسی نے آزادی کشمیر پر حملہ کیا تو ہم اس کا جبڑا توڑ دیں گے۔ ان بیانات سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم نے مظلوم کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور خود 27ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کی تیاری میں مصروف ہیں۔ مغربی دنیا نے تو کشمیر کے معاملے میں ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے جبکہ اسلامی دنیا نے بھی ہمیں مایوس کیا ہے۔ کیا یہ ہے ہماری خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا شاہکار۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ٹرمپ پاکستان کے ذریعے افغانستان سے اپنی فوجیں بحفاظت نکالنے کے لئے ہماری حکومت کے بھر پور تعاون کا مرہون منت ہے اور دوسری طرف وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی رتی بھر مدد کرنے کو آمادہ نہیں۔ بعض پاکستانی دانشوروں کا کہنا ہے کہ ہمیں متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب سے گلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ بھارت کے حوالے سے ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ بڑی عجیب غریب بات ہے، 57اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی تنظیم برائے تعاون اس باہمی مدد کے لئے تشکیل دی گئی تھی۔45مسلمان ممالک کی ’’اسلامی فوج‘‘ جس کے سربراہ جنرل راحیل شریف ہیں وہ کس مقصد کے لئے بنائی گئی ہے۔ او آئی سی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 1969ء میں یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ آج ہندو حکومت سیکولرازم کے سارے نقاب اتار کر کشمیر میں مسلم کشی پر اتر آئی ہے تو اس وقت امت مسلمہ اہل کشمیر اور اہل پاکستان کے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی تو پھر او آئی سی اور اسلامی فوج کے وجود کا کیا جواز ہے؟ یہی امت مسلمہ کا امتحان ہے۔ ایک امتحان بھارتی سپریم کورٹ کا بھی ہے۔ بھارتی دستور کی دفعہ 142کے تحت انڈین سپریم کورٹ بہت پاور فل ہے۔ اس کے فیصلے تمام بھارتی عدالتوں‘ بھارتی یونین یعنی مرکزی حکومت تمام ریاستوں اور بھارتی پارلیمنٹ پر لاگو ہوتے ہیں۔ بھارتی صدر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر من و عن عملدرآمد کا پابند ہوتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ میں نریندر مودی کے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35-Aکی منسوخی اور کشمیر میں 90لاکھکشمیریوں کو گھروں میں مقید کرنے اور تمام ذرائع وابلاغ بند کرنے کے خلاف 14درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔5رکنی بنچ نے بھارتی حکومت کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا ہے۔ اب معلوم ہو گا کہ حقیقی معنوں میں بھارتی سپریم کورٹ آزاد ہے یا نہیں۔ یہی اس کا بڑا امتحان ہے۔ انڈیا کی کانگریس اور جنتا دل جیسی جمہوریت نواز سیکولر پارٹیوں، وہاں کے دانشوروں، اخباروں اور میڈیا چینلوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ بھارتی دستور کی پاسداری کرتے ہیں یا مودی کی متعصبانہ ہندو سوچ کی ہمنوائی۔ اگروہ پاکستان کی مخالفت میں مودی کی ہمنوائی کریں گے تو پھر بھارت میں دس گیارہ اور علیحدگی پسند تحریکوں کی تشویش میں اضافہ ہو گا اور ان کی کارروائیوں میں مزید شدت پیدا ہو گی۔ برطانوی اخبار اور امریکی میڈیا کے ذریعے ملنے والی تازہ ترین خبریں انتہائی تشویش ناک ہیں ان خبروں کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی تیاری ہے۔ سری نگر میں بنکر قائم اور شوٹرز تعینات ہو چکے ہیں۔25ویں روز بھی کشمیر کا دنیا سے رابطہ منقطع، کاروبار زندگی معطل، محصور کشمیریوں کے پاس کھانے پینے کی اشیاء اورادویات ختم ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں سب سے بڑا امتحان پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے ریاستی اداروں کا ہے۔ سوائے چین اور ایک دو مسلمان ملکوں کے کسی نے نہ صرف کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی نہیں کیا بلکہ مودی کے ہولناک کرفیو کو ختم کرانے کے لئے بھی اس پر کوئی دبائو نہیں ڈالا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم 27ستمبر کی ایک رسمی تقریر سے ساری امیدیں باندھنے کی بجائے ابھی سے ملک ملک جا کر اور سوشل میڈیا کے ذریعے ساری دنیا کو بتائیں کہ مودی آج کا ہٹلر ہے اور آر ایس ایس نازی جرمنی کے ماڈل پر بنائی گئی تھی جس کا مودی ممبر تھا۔ ہمیں دنیا کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ کشمیریوں کی نسل کشی مودی کا ہدف ہے۔ مغرب اور امریکہ کی انسانیت نواز عوام کو باور کرانا ہو گا کہ مودی کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کر رہا ہے۔ ہمیں دنیا کو یہ بھی یاد دلانا ہو گا کہ ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کے تحفظ کے لئے اس امتحان میں ہر قیمت پر سرخروئی حاصل کرنا ہو گی۔ اس سرخروئی کے لئے ہم ہر جنگی ہتھیار اٹھا سکتے ہیں چلا سکتے ہیں۔یہ کتنے ایکسائٹڈ تھے۔ شاید اب جناب عمران خان کو کچھ اندازہ ہوا ہو گا کہ سفارت کاری کی دنیا ریا کاری سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے۔ یہاں لبوں پر کچھ نہاں خانہ دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا