انیس سو ستر میں جب پہلے عام انتخابات ہونے جا رہے تھے، اس وقت میں اس اخبار میں کام کر رہا تھا جو شیخ مجیب الرحمان اور ان کی جماعت،، عوامی لیگ،، کا ترجمان تھا، یہ شعبہ صحافت میں میری پہلی جاب تھی، مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کی ،، مقبولیت،، کا یہ عالم تھا کہ بائیں بازو کے گنے چنے دانشوروں کے سوا اس کا کوئی ووٹر دکھائی نہیں دیتا تھا، میں اس زمانے میں شاہ حسین کالج میں پڑھ بھی رہا تھا، میں بلا وجہ شیخ مجیب کے چھ نکات کا حامی تھا، کالج میں اسٹوڈنٹ یونین کے انتخابات ہوئے تو میں جنرل سیکرٹری کی سیٹ پر امیدوار بن گیا، میں نے اپنا منشور شیخ مجیب ہی کے چھ نکات سے متاثر ہو کر بنایا تھا، مجھے اس انتخابی معرکے میں کامیابی نصیب ہوئی، پھر عام انتخابات کے حتمی امیدواروں کی فہرست اخبارات میں چھپی تو پتہ چلا کہ پورے مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کا ایک ہی امیدوار ہے اور اس امیدوار کا نام تھا ملک حامد سرفراز، میں ملک صاحب کو اچھی طرح جانتا تھا وہ کبھی کبھار رات کو پریس کلب میں حبیب جالب، ظہور بھائی اور ظہیر کاشمیری کے ساتھ تاش کھیلنے آیا کرتے تھے، میں ملک صاحب کو ملنے ان کے گھر پہنچا جو نسبت روڈ پر گوالمنڈی سے تھوڑا پہلے ایک گلی میں واقع تھا۔ ملک حامد سرفراز مجھے گھر کے اندر لے گئے۔ میں نے انہیں ان کی انتخابی مہم کے سلسلہ میں اپنی خدمات پیش کیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ بشیر بختیار لیبر ہال سے ملحقہ ایک گلی میں بیٹھک کرائے پر لی گئی، وہاں دوتین کرسیاں رکھی گئیں اوراسے عوامی لیگ کا آفس ڈیکلیئر کر دیا گیا۔ میں اس دفتر کا سربراہ بن گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اس دفتر میں رونق کیسے لگائی جائے۔ دیال سنگھ کالج کے ساتھ ایک عوامی ہوٹل ہوا کرتا تھا، ملک حامد سرفراز نے اس ہوٹل کے مالک سے مجھے ملوایا اور اسے ہدایت جاری کی کہ یہ لڑکا جتنے بھی لوگوں کے لئے چائے، کھانا منگوائے یا مہمان ہوٹل میں لے کر آئے بل وہ دیا کریں گے۔ اس طرح شہر میں میرے جتنے بھی جاننے والے تھے میں نے انہیں اس آفس میں بلوانا شروع کر دیا۔ چہل پہل توشروع ہوگئی، مگرمجال ہے کہ کبھی وہاں عوامی لیگ، شیخ مجیب یا ملک حامد سرفراز کے حق میں کوئی بات ہوتی ہو، ملک حامد سرفراز کا اپنا ٹھکانہ کافی ہاؤس تھا۔ ٭٭٭٭٭ پھر انتخابات کا دن آن پہنچا، نتائج میں پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا تھا، دوسری ساری جماعتیں،، ٹھاہ،، ہوگئیں، عوامی لیگ کے اکلوتے امیدوار ملک حامد سرفراز کی ضمانت ضبط ہوئی، پورے مشرقی پاکستان میں پیپلز پارٹی کا کوئی ایک امیدوار بھی میدان میں نہیں تھا، مجموعی طور پر عوامی لیگ کی نشستیں زیادہ تھیں اور حق حکمرانی بھی اسے ہی ملنا چاہئیے تھا لیکن’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو شیخ مجیب کی حکومت گوارا نہ تھی اور اس طرح شیخ مجیب کو اپنی فتح کا جشن جیل میں منانا پڑا۔مجھے اخبار میں کام کرنے اور لکھنے کا چسکا پڑ چکا تھا، عوامی لیگ کے ترجمان اخبار روزنامہ ’’آزاد‘‘ میں مجھے پروفیسر ایرک سپرین کی سفارش پر ملازمت ملی تھی ، اب اس اخبار کی بندش کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ اب کس اخبار کو کیسے جوائن کیا جائے۔ میں نے چسکا پورا کرنے کے لئے مختلف رسائل و جرائد کے دفاتر میں جانا شروع کر دیا۔ بچوں کی کہانیاں، نظمیں اور دیگر موضوعات پر مضامین لکھنے شروع کردیے۔ اس زمانے میں عام طور پر لکھنے کا معاوضہ ادا کیا جاتا تھا۔ کہیں سے دس، کہیں سے بیس اور کہیں سے پچاس روپے تک بھی مل جاتے، لیکن مجھے کسی روزنامہ میں کام کرنا تھا جس کے لئے میں بہت تگ و دو کر رہا تھا۔ اسی دوران مجھے کسی نے ،، روزنامہ مغربی پاکستان،، کی راہ دکھا دی، جس کا آفس بیڈن روڈ پر واقع تھا۔ ان دنوں اس اخبار کے ادارتی صفحات کے انچارج جناب انوار قمر تھے، انتہائی حلیم اور شفیق شخصیت۔ میں نے انوار قمر صاحب سے پہلی ملاقات کی تو ایسا لگا جیسے ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی نہیں۔ انہوں نے کہا، تم آج ہی سے کام شروع کر سکتے ہو، مگر تنخواہ کی ادائیگی کا ذمہ میں نہیں لے سکتا، اس کے لئے تمہیں شیخ شفاعت (اخبار کے مالک) سے خود بات کرنا ہوگی۔ میں نے سوچا، چلو کام شروع کرتے ہیں، جب تنخواہ کا وقت آیا شیخ صاحب سے بھی نمٹ لیں گے۔ ٭٭٭٭٭ اب ہم آتے ہیں آج کے کالم کے عنوان کی جانب، دو دن پہلے وفات پا جانے والے سید امتیاز راشد انیس سو اکہتر میں،، روزنامہ مغربی پاکستان،، کے چیف رپورٹر ہوا کرتے تھے، اخبار کے دفتر کی سیڑھیاں ختم ہوتے ہی آپ کو ایک کمرہ نظر آتا، اور اس کمرے میں میز کی دوسری جانب جو شخص کرسی پر براجمان ہوتا اسی کا نام تھا، امتیاز راشد۔ لاہور میں رپورٹنگ کی دنیا کا ایک بڑا نام،خبر کا سراغ رساں، انتہائی محنتی اور جفاکش صحافی جو صحافت ہی نہیں شرارت کی بھی پڑیا تھا۔ کوئی شخص امتیاز راشد کے پاس بیٹھا ہو اور قہقہے نہ لگا رہا ہو یہ ممکن نہیں ہوتا تھا۔ میری سید امتیاز راشد صاحب سے جلد ہی بے تکلفی ہوگئی۔ جب بھی فرصت ملتی ایک دو گھنٹے ان کی صحبت میں ضرور گزارتا، آہستہ آہستہ یہ تعلق محبت میں بدلتا گیا۔ امتیاز راشد نام ہی محبت اور بے تکلفی کا تھا۔ یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ چین سے کھلاڑیوں کی کوئی ٹیم رات گئے پاکستان آ رہی تھی، اسے کور کرنے خود شاہ صاحب یعنی امتیاز راشد ائیر پورٹ گئے۔ وہاں اور بھی اخبارات کے رپورٹرز موجود تھے۔ جونہی چینی کھلاڑیوں کی ٹیم ائیر پورٹ سے باہر نکلی، امتیاز راشد نے اس کے کپتان کو اپنے نرغے میں لے لیا اور اپنا تعارف اس طرح کروایا،،،"I AM THE CHIEF REPORTER OF WEST PAKSTAN" چینی ٹیم کے کپتان نے تصور کر لیا کہ امتیاز راشد ہی پورے پاکستان کے صحافیوں کے چیف ہیں، کپتان نے شاہ صاحب کو انٹر ویو دیا اور دوسرے کسی صحافی سے بات کئے بغیر ہی وہاں سے نکل گئے، سب منہ دیکھتے رہ گئے۔ ٭٭٭٭٭ ایک رات گیارہ بجے کے قریب میں امتیاز راشد صاحب سے گپ شپ کے بعد آفس سے نکلا کہ بیڈن روڈ چوک کے قریب ایک جاننے والی خاتون اپنی پانچ بیٹیوں سمیت ٹکر گئیں۔ اس خاتون کی دو صاحبزادیاں تھیٹر کی معروف ہیروئینز تھیں اور شاید ڈرامہ ختم ہونے کے بعد یہ فیملی براستہ کوپر روڈ گھر کی جانب پیدل رواں دواں تھی، میرے قریب پہنچ کر یہ فیملی علیک سلیک کے لئے رک گئی، باتوں ہی باتوں میں غلطی سے انہیں کھانے کی پیشکش کر بیٹھا جو انہوں نے قبول کر لی جبکہ میری جیب خالی تھی، میں نے اس فیملی کو امتیاز راشد صاحب کی اجازت سے ان کے کمرے میں بٹھایا اور خود کھانے کا آرڈر دینے لکشمی چوک چلا گیا، تھوڑی دیر بعد ایک بیرا کھانا لے کر پہنچ گیا، شدید سردی کے موسم میں بھی میرے پسینے چھوٹ رہے تھے، امتیاز راشد صاحب کو حقیقت سے آگاہ کیا تو انہوں نے اپنے گھر سے پیسے منگوا کر میری یہ مشکل حل کی۔ ٭٭٭٭٭ انیس سو بیاسی میں امتیاز راشد اور میں نے نئے اخبار سے صحافتی زندگی کا نیا سفر شروع کیا، میں تو سن دو ہزار دو تک وہاں رہا لیکن سید امتیاز راشد نے اسی ادارے سے وابستہ رہ کر اپنی عمر تمام کی، ان کی محبتوں کے بہت قرض ہیں مجھ پر جنہیں اب میں کبھی چکا نہ سکوں گا۔ بے شک مرحوم ایک بے لوث اور مخلص ساتھی تھے۔ کوئی بات کوئی گلہ کوئی شکوہ دل میں نہ رکھنے والا آدمی جس پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا جا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ امتیاز راشد!