بھارت کشمیرپرفوجی جارحیت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیرپرمسلسل تہذیبی جارحیت کابھی ارتکاب کررہاہے ۔دیومالائی کہانیاں جوہندومت کی بنیادہے میں سے ہندئووں نے ایک کہانی یہ بھی گھڑ لی ہے کہ مقبوضہ کشمیرکے جنوبی علاقے کے انتہائی پرفضامقام پہلگام کے دوردرازفلک بوس پہاڑی سلسلوں کے درمیان میںایک حجرہ نما غار کے اندر شو جی کا ایک پرانا برف کا شیو لنگ ہے۔ اس لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کاایک تیرتھ استھان ہے جو امرناتھ کہلاتاہے اس دیومالائی کہانی کی بنیادپربھارت کے لاکھوں ہندو ہر سال مقبوضہ کشمیر کارخ کرتے ہیں اورکم ازکم تین ماہ تک وہ مقبوضہ کشمیرکے پرفضاماحول کوآلودہ کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ مقبوضہ وادی میں کشمیری ہندئووں کی کل تعداددولاکھ سے زائدنہیں ہے اوروہ بھی سارے کے سارے 1990ء میں جہادکشمیرشروع ہوتے ہی کٹھ پتلی انتظامیہ کی ایماپراز خودوادی چھوڑ کر جموں ،دہلی اوربھارت کے دیگر صوبوں میں مقیم ہوئے اورحکومت بھارت نے ماہانہ ان پرکروڑوں رقوم صرف کرکے انہیں زندگی کی ہرسہولت سے نوازرکھاہے۔ اس لئے امرناتھ یاتراکے لئے مقامی ہندئووں سے سو گنا زیادہ بھارتی ریاستوں سے ہندو مقبوضہ کشمیرپہنچ جاتے ہیں تاحال 12لاکھ سے زائد بھارتی ہندئووں نے اس ماہ سے شروع ہونے والے سالانہ امرناتھ یاترا میں حصہ لینے کے لئے اپنے ناموں کا اندراج کرایا ہے جبکہ وادی کشمیر میں 29 جون سے شروع ہونے والی ہندئووں کی سالانہ امرناتھ یاترا کی آڑ میں مقبوضہ کشمیرمیں مزیدفوج کشی کی ہے اور 200اضافی کمپنیاں تعینات کردی گئی ہیں۔ ہر کمپنی کم از کم ایک سو اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ سی آر پی ایف اور ایس ایس بی کی نئی کمپنیوں کی تعیناتی وادی میں پہلے سے موجود پیرا ملٹری اور ریاستی پولیس کے اضافی ہے۔ 1990ء سے قبل امرناتھ یاتراکی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی محض چندسوہندوخاموشی کے ساتھ اس پہاڑی غارتک پہنچ کرخاموشی کے ساتھ واپس چلے جاتے تھے لیکن جہادکشمیرکے شروع ہوتے ہی دہلی سرکااورکٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ نے ہندئووں کی اس یاترا کو سرکاری طور پر پذیرائی بخشی اور بھارتی ریاستوں سے ہندئووں کوبڑے پیمانے پریہاں بلانا شروع کیا۔ دہلی سرکااورکٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ نے امرناتھ پہنچانے کے لئے بھارت کے ہندئووںکوتمام تر سہولیات دینے کے لئے ہندو شرائن بورڈ قائم کیا اور اسے سالانہ کروڑوں روپے فنڈز دیئے جارہے ہیں۔ خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیرمیںہندئووں کی مندروں کے تحفظ اور مرناتھ یاترا کے انتظامات کے لئے بھارت نواز نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں شری امرناتھ شرائن بورڈ تشکیل دیا گیا تھا۔ 2008ء میں دہلی سرکار اور کٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ نے ہندئووںکے اس شرائن بورڈ کووادی کشمیر کے ایک بڑے سیاحتی مقام ’’سونہ مرگ‘‘کی کروڑوں مالیت کی کئی ایکڑاراضی منتقل کی جسکے خلاف اسلامیان کشمیرآتش زیرپاہوئے ۔اسلامیان کشمیر کا موقف تھاکہ کشمیرکی اراضی کسی بھی طرح ہندئووں کے شرائن بورڈ کومنتقل نہیں کی جاسکتی ہے کیوںکہ بھارت کے ہندئووں کوارض کشمیرپرقبضہ جمانے کا کوئی حق موجود نہیں۔اسلامیان کشمیرکے اس احتجاج نے کئی مہینوں تک طول پکڑااس دوران حالات اس وقت بالکل بے قابوہوئے کہ جب بھارتی قابض فوج نے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے بیسیوں کشمیری نوجوانوں کو شہید کرکے جلیانوالہ باغ کاری پلے کیا۔اس ظلم عظیم کے باوجود جب اسلامیان کشمیرکااحتجاج تھم نہ سکا تو مقبوضہ جموں وکشمیر میں کانگریس کی سربراہی والی مخلوط کٹھ پتلی حکومت کے کٹھ پتلی وزیر اعلی غلام نبی آزاد کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ تب سے اسلامیان کشمیراورحکومت بھارت کے درمیان امرناتھ کامعاملہ ایک بڑے قضیہ کے ساتھ چلا آ رہاہے ۔اسلامیان کشمیرکامطالبہ ہے کہ اس یاترا کیلئے بھارتی ہندئووں کی بڑے پیمانے پرمقبوضہ کشمیرآمدپرروکاجائے اوراس یاتراکی مدت بھی تین ماہ سے کم کرکے پندرہ دن رکھا جائے تاہم ضد پر اتری ہوئی دہلی سرکارکٹھ پتلی کشمیرانتظامیہ پراپنادبائو برقرار رکھے ہوئے ہے کہ وہ اس یاترامیں مزید لاکھوںہندوئوں کی شمولیت کویقینی بنائے اوراس کی مدت بھی بڑھادی جائے ۔اس سے صاف ظاہر ہو رہاہے کہ محض ایک دیومالائی کہانی گھڑ کر بھارت کشمیرپرکس طرح تہذیبی جارحیت کوفروغ دے رہا ہے ۔اس کے سامنے کشمیریوںکی چیخ وپکار، احتجاج اور ان کی شہادتیںکوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مقامی حکومت کو ہدایات دی تھیں کہ وہ ساڑھے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع امرناتھ غار تک پختہ شاہراہ تعمیر کرائے۔ یہ حکم نامہ اس امر کی تصدیق کررہاہے کہ بھارت کس حدتک مقبوضہ کشمیر میں ہندونشانات کوتحفظ دے رہاہے ۔بھارتی سپریم کورٹ کے اس ناجائزفیصلے سے اسلامیان کشمیر کو خدشہ لاحق ہوچکاہے کہ اس سڑک کی تعمیر سے امرناتھ یاترا سیاسی اور فوجی عزائم کی تکمیل کا ’’لانچ پیڈ‘‘ بن جائے گا۔قابل ذکر ہے کہ2008 ء میں جب بھارتی گورنر کی سربراہی والے شرائن بورڈ نے بال تل میں آٹھ سو کنال اراضی پر قبضہ کیا، تواسی وقت کشمیری مسلمان حکومت بھارت کے مذموم عزائم کو سمجھ چکے تھے ۔یعنی وہ یہ بات بخوبی سمجھ گئے کہ اس یاترا کیلئے لاکھوں ہندوستانیوں کو سرکاری طور پرمدعو کرنے کا مقصد عالمی برادری کو گمراہ کرنا ہے۔ دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیر تو پورے ہندوستان کیلئے ایک مذہبی مقام ہے، اس کو الگ کیسے کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ بھارتی ہندئووں کی اس یاترا کیلئے لاکھوں لوگوں کی آمد کو ماحولیات کے لیے بھی خطرات لاحق ہیں۔ ملت اسلامیہ کشمیریہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ امرناتھ یاترا کی مدت کو کم کیا جائے۔ خیال رہے کہ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی جو آر ایس ایس کے فدائی کے طور پر RSS چیف ڈاکٹر موہن کی حمایت سے بھارت کے وزیراعظم بنے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مودی آرایس ایس کوکھل کھیلنے کاموقع فراہم کررہے ہیں۔اس سیاق وسباق کے ساتھ جب سے آرایس ایس کے مائنڈ سیٹ نے بھارتی اقتدارپرقبضہ کرلیاتواس نے امرناتھ یاتراکوہندومسلم جنگ کے طورپرپیش کیاجسکے باعث بھارت کے طول وعرض سے ہندوؤں کی بے پناہ شرکت اس یاترامیں ہوتی رہی ہے۔واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیرکے صوبہ جموں میں پہلے ہی آرایس ایس، ویشواہندوپریشد اوربجرنگ دل جموں کے تعلیمی اداروں میں ہندووں کو ہتھیاروں کی تربیت دے رہی ہیں اس طرح انہوں نے جموں میں ایک بارپھر مسلمانوں کی نسلی صفائی کرنے کیلئے خاکے بنادیئے ہیں۔ جموں میںمسلمانوں کو جنگلاتی اراضی چھڑانے کے نام پر بے گھر کرنے، ان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرکے مندر بنانے اور انتظامیہ، عدلیہ، پولیس اور محکمہ مال میں اہم پوسٹوں پر تعینات مسلم افسروں کا تبادلہ کرنے اور ان کی جگہ آر ایس ایس ذہنیت کے لوگوں کو لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔