امریکی سینٹ کمیٹی کی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیاہے۔ سینیٹر لنزے گراہم کی پیش کی گئی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت 60روز سے نافذ کرفیو ختم کرے۔ گرفتار افراد کو رہا کیا جائے اور کشمیر میں جاری مواصلاتی لاک ڈائون فوری طور پر ختم کیا جائے۔امریکہ کے متعدد انسان دوست سیاستدان کشمیریوں پر بھارتی جبر کے مخالف ہیں اور غیر قانونی ‘ غیر آئینی و غیر انسانی پابندیوں کے باعث اہل کشمیر کی مشکلات میں اضافے سے واقف ہیں۔ لنزے گراہم کی طرح سینیٹر کرس وارن پالین بھی کشمیر کی حالت پر دل گرفتہ ہیں۔ یہ ان چار سینیٹرز میں سے ہیں جنہوں نے صدر ٹرمپ کو کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی جارحیت سے خط کے ذریعے آگاہ کیا تھا۔ سینیٹر کرس وارن مقبوضہ کشمیر کا دورہ کر کے صورت حال کا جائزہ لینا چاہتے تھے مگر بھارتی حکومت نے انہیں مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہ دی۔ سینیٹر کرس وارن کا کہنا ہے کہ دنیا کو کشمیر اور ایشیا میں جو ہو رہا ہے اس کی خبر ہے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات جلد شروع ہونے کی امید ظاہر کی ہے۔ بھارت نے 5اگست 2019ء کو یکطرفہ اقدام کے ذریعے کشمیر کی آئینی حیثیت بدل کر اسے اپنا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ کشمیر کا الگ ریاستی پرچم ختم کر دیا گیا۔ بھارت کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو کشمیر میں املاک خریدنے کی اجازت دیدی اور لداخ کو کشمیر سے الگ علاقہ قرار دیدیا۔ اہل کشمیراور پاکستان بھارتی آئین کی شق 370کو پہلے بھی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ یہ شق 1947ء میں پنڈت نہرو ‘ وی پی مینن ‘ناعاقبت اندیش شیخ عبداللہ اور مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے گٹھ جوڑ کے سوا کچھ بھی نہیں تھی۔ بھارت کا دعویٰ رہا ہے کہ شق 370مہاراجہ اوربھارتی حکومت کے درمیان الحاق کے معاہدے کی شرائط پر مشتمل ہے۔ ان شرائط کا انکار یا اسے آئین سے نکالنا دراصل اس جواز کا خاتمہ ہے جس کی بنیاد پر بھارت کشمیر پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ مہاراجہ کی اولاد بھارت کے حالیہ اقدام کو الحاق کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔ شیخ عبداللہ اور پنڈت نہرو کی اولاد جو سیاسی طورپر آج بھی فعال ہے مودی حکومت کے فیصلے کو غلط قرار دیتی ہے۔ پھر سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں 85فیصد آبادی کے مالک مسلمان بھارت کے ساتھ رہنے کو تیارنہیں۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جو کشمیر کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے علم میں ہیں۔ بھارت کے یکطرفہ اقدام پر دو فریق ردعمل دینے پر مجبور تھے۔ کشمیری اور ریاست پاکستان۔ بھارت نے کشمیری باشندوں کے ردعمل کو روکنے کے لئے پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا۔ اس کرفیو کی سنگینی یہ ہے کہ 60روز سے کشمیری اپنے معمولات زندگی انجام دینے سے محروم ہیں۔ بیماروں کو علاج میسر نہیں۔ طلباء و طالبات تعلیمی اداروںمیں جانے کے قابل نہیں۔ کاروباری مراکز اور دکانوں کے سامنے بھارت کے سکیورٹی اہلکار ناکہ لگائے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کے رابطے منقطع ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کشمیری کیسے زندہ ہیں اور اپنی ضروریات کیسے پوری کر رہے ہیں ‘ستم تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہیں۔ یہ بھی حقائق ہیں جنہیں انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی کھلی خلاف ورزیاں قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی بھارت کو مذاکرات کی پیش کی۔ یہ پیشکش بار بار دہرائی گئی مگر خطے میں عالمی طاقت کا نیا مرکز بننے کی ہٹ میں مبتلا بھارت اسے پاکستان کی کمزوری سمجھ بیٹھا۔ اسی غلط فہمی میں اس نے اپنے لڑاکا طیارے پاکستان کی فضائی حدود میں بھیج دیے جنہیں اگلے دن گرا کر پاکستان نے واضح کر دیا کہ اس کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ کم فہم بھارتی قیادت نے اس سے سبق حاصل کرنے کی بجائے بھارتی انتخابات میں وطن پرستی کا ایک محرک بنا کر پیش کیا اور نریندر مودی ایک بارپھر وزیر اعظم بن گئے۔ انتخابی مہم کے دوران پاکستان اور مسلم مخالفت کے ساتھ ساتھ کشمیر پر قبضہ کی باتیں کی گئیں۔ جیت کے بعد کشمیر کی حیثیت بدلنا ایسے ہی نامعقول انتخابی ایجنڈے پر عملدرآمد تھا جسے دو طیاروں کی تباہی سے پیدا ہونے والی شرمندگی سے بچنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے وزیر اعظم عمران خان کا خطاب بھر پور تھا۔ ماحول سے محبت کرنے والوں نے عمران خان کی تقریر کو سراہا۔ عالمی معاشی نظام کے غیر منصفانہ ضابطوں سے عاجز غریب اور پسماندہ ریاستوں نے عمران خان کے موقف پر داد دی۔ سارے دنیا کے مسلمانوں نے توہین رسالت و مذہب اور اسلامو فوبیا کے معاملات پر کھل کر مغربی دنیا کو شرمندہ کرنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کی کاوش پر مرحبا کہا ‘ساتھ ہی بھارتی جبر اور ظلم کے شکار کشمیریوں تک جوں جوں عمران خان کی تقریر کے حصے پہنچے ان کے حوصلے بلند ہوئے۔ وزیر اعظم نے امریکہ میں سات روز قیام کے دوران ستر شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ برسوں تک پاکستان جن تنظیموں‘ ریاستوں اور شخصیات کے لئے غیر اہم رہا تھا وہ پاکستان کے معاملات میں دلچسپی لیتے دکھائی دیں۔ خصوصاً کشمیر کے معاملے پر بھارت کا پروپیگنڈہ وزیر اعظم کی بھر پور کوشش سے دم توڑتا نظر آتا ہے۔ امریکی سینیٹرز کا مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی بحران پر اظہار تشویش پاکستان کی کوششوں کے درست سمت میں آگے بڑھنے کی دلیل ہے۔ پاکستان نے اچھا کیا کہ بھارتی انکار کے بعد امریکی سینیٹرز کو آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دورے کی دعوت دیدی۔ کشمیر کے معاملے پر عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو اپنی سفارت کاری اسی جارحانہ انداز میں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔