گزشتہ دنوں برطانوی نیوی کا ایران کا آئل ٹینکر ضبط کرنے کا مضحکہ خیز واقعہ پیش آیا۔ برطانیہ کو اس اقدام میں امریکہ کی خوشنودی اور پشت پناہی حاصل ہے اور امریکہ شاید یہ سب کچھ اپنی بی ٹیم کے ایما پر کروا رہا ہے۔ اب تک اس واقعہ پر امریکہ کی بی ٹیم کے ایک اہلکار امریکی نیشنل سکیورٹی کے مشیر جان ولٹن نے تفاخر اور خوشی کا اظہار کیا ہے بی ٹیم کے بانی تین ارکان دو عرب شہزادے اور اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے فی الوقت خود کو اس تنازع سے دور رکھا ہوا ہے۔امریکہ اور برطانیہ کے اس اقدام کا اصل مقصد تو ایران کو جوابی ردعمل پر اکسانا تھا مگر ایران نے تحمل سے کام لے کربرطانوی اشتعال انگیزی پر کسی قسم کے مشتعل ردعمل سے گریز کیا ہے اور اپنے وقت کا انتظار کر رہا ہے۔ ورنہ امریکہ اور برطانیہ کا تو منصوبہ ہی یہ تھا کہ ایران اس اقدام پر جذباتی ردعمل اپناکر امریکہ اور برطانیہ کو خطہ میں جنگ کا جواز فراہم کر دیتا، جس میں اب تک صرف نیٹو کا آرٹیکل 5رکاوٹ ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ کی خواہش تھی کہ ایران کو ردعمل پر اکسا کر نیٹو کو اجتماعی مفادات کے تحفظ کی آڑ میں ساتھ ملایا جائے اور امریکہ اور برطانیہ کو ایران پر جنگ مسلط کرنے کا موقع مل جاتا۔ امریکہ کی بی ٹیم کافی عرصہ سے اس قسم کے نایاب موقع کی تلاش میں ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا حالیہ برسلز کا دورہ بھی ایران کے خلاف جنگ میں نیٹو کی حمایت حاصل کرنے کا ہی مشن تھا۔ اب تک ایران نے امریکہ اور برطانیہ کے گیم پلان کے حوالے سے خاصی دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایران نے جب برطانوی اشتعال انگیزی کا تحمل سے جواب دیا اور معاملہ صرف سنگین نتائج کے انتبا تک ہی محدودرہا تو برطانیہ نے ایران پر جھوٹے الزامات لگانے شروع کر دیے کہ ایران نے آبنائے ہرمز میں برطانوی آئل ٹینکر کو روکا ہے مگر ایران نے اس کا بھی نہایت ہوش مندی سے جواب دیا۔ ظاہر ہے تہران نے تمام الزامات مسترد کر دیے۔ اسی اثناء میں امریکہ کی طرف سے آبنائے ہرمز میں تجارتی سرگرمیوں کے تحفظ کے لئے عالمی اتحاد کی کوششیں بھی تیز کر دی گئیں۔ برطانیہ کے جھوٹے الزامات کا فوری طور پر سہارا لیتے ہوئے امریکہ نے آبنائے ہرمز کی حفاظت کے لئے مشترکہ سکیورٹی فورسز تشکیل دینے کے پلان پر عملدرآمد تیز کر دیا ہے۔ جنرل مائیک ملی جن کو امریکہ کا نیا چیئرمین آف یو ایس جائنٹ فورس نامزد کیا گیا ہے انہوں نے 11جولائی کو آرمڈ سروسز کمیٹی کے روبرو یہ تسلیم کیا ہے کہ واشنگٹن کمرشل شپنگ کے لئے مشترکہ نیول اسکواڈ بنانے کے لئے کوشش کر رہا ہے ۔ان کے الفاظ ہیں یہ فورس اگلے چند ہفتوں میں معرض وجود میں آ جائے گی۔ ان تمام اقدامات کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ امریکہ ایران کے پانیوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ سمندر عالمی قوانین کے تحت اومان اور ایران کی ملکیت ہیں۔ ایرانی سمندر سے عالمی تجارت کے قانونی پہلو ہیں اور یقینا ان کو عالمی قوانین کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ معاملہ اس سے پہلے بھی عالمی عدالت انصاف کے سامنے لایا جا چکا ہے اور عالمی عدالت نے آبنائے ہرمز میں امن کے دنوں میں گزرنے کا حق تسلیم کر چکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایران ایسے جہازوں کو گزرنے سے روک سکتا ہے جو اس کی علاقائی سلامتی اور خود مختاری کے لئے خطرہ بن سکتے ہوں۔ تاہم عالمی قانون میں کچھ ابہام ہے ۔جسے امریکہ چیلنج کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایران کوسٹل سٹیٹ کی حیثیت سے ہر اس جنگی جہاز کو روک سکتا ہے جو ایران کی خود مختاری اور علاقائی سلامتی اور خود مختاری کے لئے حقیقی خطرہ ہو۔ یا پھر ایران کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرے۔ سٹریٹجک اصطلاح میں برطانیہ کی طرف سے ایران کے جہاز کو آبنائے ہرمز میں پکڑنے کا مقصد ایران کے اس گزرگاہ حق پر قبضہ کرنا تھا۔ برطانیہ کا یہ اقدام ایک طرح سے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے کہ اگر امریکہ سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر ایران پر حملہ کرتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ کیاایران آبنائے ہرمز کی عالمی تجارت بند کر سکتا ہے؟ کیا عالمی قوانین پھر بھی ایران پرلاگو ہوں گے۔ خاص طور پر جب آبنائے ہرمزسے ایران کے دشمنوں کے جہاز گزر رہے ہوں۔ حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کے ایران کے آئل ٹینکر کو ضبط کرنے کا مقصد امریکہ کے ایران کے محاصرے کے پلان کو عملی جامہ پہنانا ہے تاکہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دبائو ڈالا جا سکے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یمن کے باب المندب کے پانیوں پر قبضہ کر لیا جائے۔ جو نہر سوویز کی طرف جانے کا راستہ ہے جو گلف آف عدن اور بحر مردار اور بحرہ عرب کوجا ملتا ہے۔ باب المندب پر امریکی کنٹرول کا مطلب یہ ہو گا کہ ایران کو نہر سوویز سے کڑی امریکی نگرانی سے گزرنا ہو گا ۔ باب المندب کے بالکل سامنے ڈجبوٹی کے مقام پر امریکہ کا پہلے ہی فوجی اڈا موجود ہے ۔اس مقصد کے لئے امریکہ یمن میں جنگ بھی لڑ رہا ہے۔ یقینا یہ اقدامات عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایران کے محاصرے کے اس اینگلو امریکی منصوبے سے دور رہا جائے۔ چاہے اس کے لئے کوئی بھی بہانہ تراشا جائے ۔ بشکریہ انڈین پنچ‘ترجمہ:ذوالفقار چودھری