ایران امریکہ تنازع کی بڑھتی حدت میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ پڑھے تو رچرڈ ریویز یاد آگئے، نیویارک یونیورسٹی سکول آف لاء کے ڈین نے کہا تھا:’’ہم امریکی اپنی رہنمائی کے حوالے سے بے ہودہ اور واہیات باتیں علی الاعلان کرتے ہیں‘‘۔اسی سفاک رویے کی شرح بیان کرتے ہوئے ولیم بلم نے اپنی کتاب’’ کلنگ ہوپس،یو ایس ملٹری اینڈ سی آئی اے انٹر ونشنز سنس ورلڈ وار ٹو‘‘میں لکھا :’’بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اس لیے بے رحم ہے کیونکہ اس کی قیادت بے رحم ہے۔معاملہ یہ ہے کہ ہمارے رہنما اس لیے بے رحم ہیں کیونکہ فارن پالیسی اسٹیبلشمنٹ میں صرف انہی کو عہدہ مل سکتا ہے جو بے رحم، ظالم،بے شرم اورڈھیٹ ہوں‘‘۔ یہ آج کی بات نہیں کہ اسے جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی افتاد طبع کے باب میں لکھ دیا جائے۔جب ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم پھینکے گئے اس وقت وائٹ ہائوس میں ڈونلڈ ٹرمپ تو تشریف فرما نہیں تھے۔جب افغانستان اور عراق کو روندا گیا اس وقت بھی اقتدار ٹرمپ کے پاس نہیں تھا۔یہ کسی فرد کی افتاد طبع نہیں یہ ایک قوم کی پالیسی کا وہی تسلسل ہے جس کا اظہار رچرڈ ریویز اور ولیم بلم نے کیا تھا۔کسی کو اس باب میں کوئی شک ہو تو ہارڈورڈ زن کی کتاب ’’ پیپلز ہسٹری آف دی یونائیٹڈ سٹیٹس ‘‘ کا مطالعہ کر لے اور پھر بیٹھ کر فیصلہ کر لے کہ افتاد طبع کے اعتبار سے عالی جاہ کرسٹوفر کولمبس اور گرامی قدر ڈونلڈ ٹرمپ میں کتنے سنٹی میٹر کا فرق ہے؟ اقوام متحدہ اور دنیا کے نظام حیات کو پامال کرتے ہوئے اپنی مرضی مسلط کرنا اور اس کے لیے کسی بھی حد تک گزر جانا ٹرمپ کا شخصی رجحان نہیں ، یہ امریکہ کی اعلانیہ پالیسی رہی ہے۔یہ صدر ریگن تھے جنہوں نے کہا تھا : ’’ اقوام متحدہ میں ، ہر اس مسئلے پر جس میں ہم ملوث ہوں ، ایک سو اقوام ہمارے ساتھ متفق نہیں ہوتیں اور اس عدم اتفاق سے کبھی میرا ناشتہ تک بد مزہ نہیں ہوا ‘‘۔یہی بات کلنٹن نے اپنے انداز سے بیان کی ’’جہاں ممکن ہو ، امریکہ دیگر اقوام کے ساتھ مل کر کام کرے گا لیکن جہاں ضروری ہوا امریکہ یک طرفہ کارروائی کرے گا‘‘۔ اس معاملے میں کوئی ابہام تھا تو وہ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین ایچیسن نے بہت پہلے ہی یہ کہہ کر دور کر دیا تھا کہ امریکہ بین الاقوامی قانون اور کسی ضابطے کا پابند نہیں۔ان کے الفاظ تھے :To Hell with International Law. ۔ اقوام متحدہ کے ساتھ امریکہ کا جو رویہ رہا اس اس کا اعتراف اقوام متحدہ میں سابق امریکی سفیر ڈینئیل پیٹرک مونہان جیسی شخصیت خود کر چکی ہے۔پیٹرک امریکی سینیٹر بھی رہے اور چار امریکی صدور کے ساتھ کام کیا ۔وہ اپنی کتاب ’’ ڈینجرس پلیس‘‘میں لکھتے ہیں:’’امریکہ چاہتا تھا نتائج اقوام متحدہ کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ امریکہ کی مرضی کے مطابق نکلیں اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی خواہش تھی کہ اقوام متحدہ جو بھی قدم اٹھائے وہ غیر موثر ثابت ہو۔یہ ذمہ داری مجھے دی گئی اور میں نے اسے ادا کیا‘‘۔نام چامسکی نے اپنی کتاب ’’ کانسینٹ ود آئوٹ کانسینٹ‘‘ میں لکھا ہے ’’اقوام متحدہ کو بالکل غیر موثر بنانا ایک معمول کا عمل تھا ۔سابق امریکی وزیر کارجہ جارج شلز کے مطابق اگر کوئی بین الاقوامی تنظیم امریکی پالیسی کے مفاد میں کام نہیں کرتی تو اس کے باقی رہنے کا جواز بہت کم ہے‘‘۔ امریکہ کی ایک تاریخ ہے جس سے خون کی بو آتی ہے۔ کرسٹو فر کولمبس کے ہاتھ پر ریڈ انڈینز کا لہو ہے۔صدر زیکری ٹیلر کے حکم پر امریکی افواج میکسیکو میں گھسیں تو وہاں عصمت دری اور درندگی کی تاریخ رقم ہو گئی،فلپائین میں جنرل جیکب سمتھ نے باقاعدہ حکم دیا :مجھے قیدی نہیں لاشے چاہییں۔قتل کر کے آگ لگا دو۔ 50 ہزار شہری قتل کرنے کے بعد امریکی انسان دوستی یوں جاگی کہ جنرل جیکب کا کورٹ مارشل ہوا اور سزا یہ ملی کہ محض ریٹائر کر دیا گیا۔جنگ عظیم اول اور دوم میں ان کی درندگی ایک مثال بن چکی،جاپان پر گرے ایٹم بم تو دنیا کو یاد ہیں لیکن وہاں جو عصمت دریاں کی گئیں ان پر تو اب بات ہی کوئی نہیں کرتا۔بسمانی میں امریکیوں نے اٹلی کے قیدیوں کو اجتماعی طور پر قتل کر دیا۔ڈویڈ ولسن کی ’’ سیکرٹ وار‘‘ پڑھیے آپ کو معلوم ہو گا امریکی فوجیوں نے فرانس ، برطانیہ اور جرمنی کی کتنی عورتوں کی عصمت دری کی۔صرف فرانس میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں عصمت دری کے جو واقعات رپورٹ ہوئے ان کی تعداد3500ہے۔مائی لائی کے قتل عام کو کبھی پڑھیے ، ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ جاپان میں امریکی فوجیوں کے کارناموں کو خود امریکی یونیورسٹی آف السٹر کے پروفیسر سمن ہارے سن نے اپنی کتاب ’’ سکل ٹرافیزآف دی پیسیفک وار‘‘ میں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ــ’’امریکی فوجی جاپانی قیدیوں کے سر کاٹ کر پکاتے اور کھاتے بھی رہے‘‘۔امریکی صدارتی امیدوار جان مک کین کے مشیر نیا ل فرگوسن نے اپنی کتاب ’’ دی وار آف دی ورلڈ۔۔‘‘ میں لکھا ’’دشمن کی کھوپڑیوں کو ابال کر ، کھال اتار کر انہیں یاد گار کے طور پر رکھنا ایک معمول تھا۔کان، ہڈیاں اور دانت تک اکٹھے کیے گئے‘‘۔ امریکی کی یونیورسٹی آف الینائس کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر جیمز جے وینگارٹنر اپنی کتاب ’’ ٹرافیز آف وار ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جاپانیوں کو قتل کر کے ان کے جسم کی ہڈیوں سے مختلف چیزیں بنائی گئیں اور رکن کانگریس نے ایک جاپانی کے بازو کی ہڈی سے بنا ایک’’ لیٹر اوپنر‘‘صدر فرینکلن روز ویلٹ کو تحفے میں پیش کیا۔ آپ کو یہ جان کر دکھ ہو گا یہ حرکت آج بھی ختم نہیں ہو سکی۔ ایشین ٹریبیون کی25 اپریل 2011 ء کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں تعینات ففتھ سٹرائکر برگیڈ کے تھرڈ پلاٹون کی ’’ براوو کمپنی‘‘ کے ایک فوجی جرمی مارلوک نے ایک پندرہ سالہ نہتے افغان لڑکے گل مدین کو قتل کرنے کے بعد اس کی انگلی کاٹ کر سووینیئر کے طور پر اپنے پاس رکھ لی۔ قاتل نے اعتراف کیا اس نے صرف تفریح کے طور پر یہ قتل کیا تھا۔ ایک کالم میں آدمی کیا کچھ لکھے؟ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں لکھا تھا:’’ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی مرد عورت اور بچے کو قتل نہ کیا جائے،تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے یا اسے غائب نہ کر دیا جائے اور امریکہ اس ظلم میں شریک نہ ہو‘‘۔