دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ سولہ روز تک مسلسل جاری رہنے والے اس دور کے اختتام پر دونوں فریق الگ الگ نتیجہ بیان کر رہے ہیں جس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مذاکرات بلا نتیجہ ختم ہوئے۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان سے فوجی انخلا پر تیار ہے۔ زلمے خلیل زاد فوجیوں کے انخلا اورانسداد دہشت گردی کو یقینی بنانے کے مسودہ پر اتفاق ہونے کی خبر اپنے ٹوئٹر اکائونٹ سے دے رہے ہیں۔ امریکی نمائندہ خصوصی کا کہنا ہے کہ معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دینے کے لئے افغانستان میں سیاسی اتفاق رائے اور مکمل جنگ بندی کے لئے داخلی مذاکرات ہوں گے۔ زلمے خلیل زاد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن کی صورت حال بہتر ہو چکی ہے اورتمام فریق جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے کے برعکس طالبان ذرائع مذاکرات کے حالیہ مرحلے کو بیکار کی مشق قرار دے رہے ہیں۔ طالبان نے مزید مذاکرات میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا تاہم امریکہ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اپریل میں مذاکرات کا اگلا دور ہونے کے امکانات ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکی مذاکرات کاروں میں تین نئے افراد شامل ہوئے جن کے وہی مطالبات تھے جیسے ان سے پہلے لوگ طالبان سے کر رہے تھے۔ یہ طالبان سے فوراً سیز فائر‘ القاعدہ کے بعض ارکان کے خلاف کارروائی، انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی اور طالبان کے ممکنہ نظام حکومت میں شرعی قوانین کی حیثیت جاننا چاہتے تھے۔ طالبان اس بات سے مایوس دکھائی دیئے کہ امریکی حکام صرف مطالبات پیش کر رہے تھے بدلے میں طالبان کو دینے کے لئے ان کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات جنوبی اور مغربی ایشیامیں قیام امن کی ایک اہم کوشش کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے سب سے زیادہ جدوجہد پاکستان کو کرنا پڑ رہی ہے کیونکہ افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ فائدہ اس کے ہمسایہ ممالک کو ہو گا۔ روس‘ چین اور پاکستان اس بات پر متفق ہیں کہ افغان تنازع کو فوجی انداز میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ بطور سپرپاور اپنی ساکھ بچانے کی فکر میں مبتلا امریکہ کے لئے طالبان سے مذاکرات ایک مشکل امر تھا۔ اس سے دنیا میں امریکہ کے کمزور ہونے کا پیغام جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کر کے بہرحال دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔ امریکہ اگر مذاکرات نہیں کرتا تو اس کی کلی شکست اسے عالمی سطح پر مزید شرمسار کر سکتی ہے۔ دوسری طرف طالبان ہیں جنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ امریکہ مذاکرات چاہتا ہے یا جنگ۔ افغان طالبان اس امرسے آگاہ ہیں کہ افغانستان میں ان کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں۔ افغانستان کا پچاس فیصد علاقہ آج بھی طالبان کے قبضے میں ہے۔ افغان طالبان کے لئے یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ امریکی انخلاء کے بعد وہ کس طرح کا شرعی نظام نافذ کریں گے۔ ان کے نزدیک امریکہ یا کسی دوسری طاقت کو یہ سوال کرنے کا حق نہیں بلکہ یہ صرف افغان عوام کا اختیار ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ یہاں کون سا نظام نافذ کیا جائے۔ مذاکرات کے پانچویں دور سے توقع کی جا رہی تھی کہ دونوں فریق انخلاء اور اس کے بعد کے امورسے متعلق حتمی معاہدے پر متفق ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں ایک اختلافی نکتہ یہ بھی رہا کہ امریکہ نے جب القاعدہ سے جڑے بعض افراد کے خلاف کارروائی کی ضمانت چاہی تو افغان طالبان نے دو ٹوک انداز میں بتایا کہ یہ لوگ اب طالبان کی پناہ میں آ چکے ہیں اور انہوں نے کبھی افغانستان سے باہر کسی مسلح کارروائی میں حصہ نہیں لیا اس لئے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ طالبان کی جرأت اظہار حیرت انگیز ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ یہی امریکہ نائن الیون کے بعد اس لئے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا کہ افغان طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے سے انکارکر دیا تھا۔ طالبان کا موقف تھا کہ اسامہ بن لادن ان کا مہمان اور پناہ میں ہے اس لئے وہ نہ تو اسے امریکہ کے حوالے کریں گے اور نہ اسے کہیںجانے کا کہیں گے۔ امریکی طاقت اور رعب افغانستان کی بنجر زمینوں میں بہہ چکا ہے۔ افغان طالبان نے برطانیہ اور سوویت یونین کے بعد امریکہ کو بھی بتا دیا ہے کہ جان و مال کے نقصان سے جنگوں کا نتیجہ معلوم نہیں کیا جا سکتا‘ جنگ بندی کے معاہدے بتایا کرتے ہیں کہ کون فاتح رہا۔ یقینا امریکہ اور طالبان سمیت تمام فریقین یہی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو، امن سے خطے میں عسکریت پسندی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں بدامنی کے باعث پورا خطہ ان معاشی اور تجارتی فوائد سے محروم ہے جو آسانی سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ جنگ کاروبار اور ترقی کا رخ تباہی اور بدحالی کی طرف موڑ دیتی ہے۔ افغانستان طویل عرصے سے بدامنی اور جنگ کا شکار ہے۔ پہلے سوویت یونین کے خلاف جہاد برپا رہا اور 2001ء سے امریکہ نیٹو فورسز کے ساتھ وہاں بیٹھا ہے۔ ممکن ہے اس تنازع کے ذریعے امریکہ نے پاکستان‘ چین‘ روس اور دوسرے ہمسایہ ممالک کی ترقی کو روکنے کی منصوبہ بندی کی ہو۔ ترکمانستان کے وزیر خارجہ پاکستان تشریف لائے ہیں۔ دونوں ممالک نے تاپی گیس پائپ لائن معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ یہ گیس پائپ لائن افغانستان کے علاقے سے گزر رہی ہے۔ ایسے بہت سے منصوبے مدت سے التوا کا شکار ہیں جو افغانستان میں امن قائم ہونے کی صورت میں شروع ہو سکتے ہیں۔امریکہ کو اس مرحلے پر زمینی حقائق کو پیش نظررکھ کر مذاکراتی ایجنڈا آگے بڑھانا ہو گا ورنہ خطے کے دوست کے طور پر افغانستان سے اس کی رخصتی ممکن نہیں رہے گی۔