ایسے وقت جب دنیامہلک کورونا وبا سے مقابلہ میں مصروف ہے عالمی سیاست میںامریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا کے دو بڑے ملک مل جل کر اس وبا سے نپٹنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے اور دنیا کے دوسرے ملکوںکی بھی مدد کرتے لیکن امریکی حکومت چین کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر گامزن ہے۔آثار یہ ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ ایک سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ کورونا وبا سے پہلے ہی امریکہ اور چین کے باہمی تعلقات خرابی کی طرف گامزن تھے‘ دونوں ملک تجارتی جنگ میں اُلجھے ہوئے تھے لیکن کورونا وبا کے دوران میں مزید گراوٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔پہلے تو امریکی صدر نے کورونا وائرس کو چینی وائرس کا خطاب دیا۔ پھر عالمی ادارہ صحت کی امداد یہ کہہ کر معطل کردی کہ اس نے چینی شہر وُہان میں کورونا وبا پھوٹنے پر چین کے مبینہ غیر شفاف روّیہ سے دنیا کو آگاہ نہیں کیا۔حال ہی میں امریکہ نے چین پر نیا سنگین الزام یہ لگادیا کہ اس نے کم طاقت کے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے کیے ہیں۔تاہم چین نے اس الزام کی تردید کی ہے ۔نومبر کے امریکی الیکشن سے پہلے چین سے محاذ آرائی میںیکایک اضافہ صدر ٹرمپ کا سیاسی حربہ بھی ہوسکتا ہے۔امریکہ میں وبا سے شدید نقصان ہورہا ہے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔ صدر ٹرمپ کے مخالفین الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے شروع کے ایک ڈیڑھ ماہ میں وبا کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور ضروری احتیاطی اقدامات نہیں کیے حالانکہ امریکی انٹیلی جنس اورصحت و سلامتی سے متعلق دیگر امریکی ادارے انہیں اس خطرہ سے متنبہ کررہے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ اپنی کھال بچانے کو چین کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہوں۔ لوگوں کی توجہ کورونا کی تباہی سے چین کے ساتھ محاذ آرائی کی طرف موڑنا چاہتے ہوں۔ تاہم ایسے شواہد موجود ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتے ہوے تناؤ کا تعلق صرف ٹرمپ کی سیاست سے نہیں امریکہ کے طویل مدتی مفادات سے بھی ہے۔ اس وقت چین اور امریکہ کے تعلقات میں جو بھی تناؤ ہے اس کا آغاز امریکہ کی جانب سے ہورہا ہے جبکہ چین کا روّیہ مفاہمانہ اور لچک پر مبنی ہے۔ امریکی حکومت نے دو سال پہلے چینی مصنوعات پر ٹیکس لگانے شروع کیے اور چار بار انکا دائرہ کار بڑھایا جس کے جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات کی درآمد پر ٹیرف لگائے۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان ایک تجارتی جنگ شروع ہوگئی۔ دو طرفہ تجارت کا حجم کم ہوگیا۔ گزشتہ سال امریکہ کا چین سے تجارتی خسارہ 346 ارب ڈالر تھا۔ چین نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے مذاکرات کیے اور چند ماہ پہلے ہی دونوں ملکوں نے ایک سمجھوتہ کیا ۔ چین نے وعدہ کیا کہ وہ امریکہ سے تجارتی خسارہ کم کرنے کو اس سے درآمدات میں خاصا اضافہ کرے گا جبکہ جواب میں امریکہ چین کی مصنوعات پر لگائے ٹیکس کم کردے گا۔اسی طرح تایئوان‘ تبت اور سنکیانگ کے معاملات پر بھی امریکہ نے چین کو اشتعال دلانے والا موقف اختیا کیا لیکن چین نے تحمل سے کام لیا۔ دوسری طرف‘ امریکہ چین کی معاشی‘ عسکری‘ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تیزرفتار پیش قدمی‘ ترقی سے گھبراہٹ اور تشویش کا شکار ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں چین کی جو تیز رفتار معاشی ترقی ہوئی ہے اس کے باعث اسکی مجموعی قومی دولت (جی ڈی پی) کا حجم قوت خرید کے اعتبار سے امریکہ سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔ جبکہ عام روائتی طریقہ سے دیکھا جائے توماہرین کا خیال ہے کہ اسکا جی ڈی پی اگلے دس برسوں میں امریکہ سے زیادہ ہوجائے گا۔تخمینہ ہے کہ اگلے بیس برسوں میں اسکی عسکری قوت امریکہ کے برابر ہوجائے گی۔ امریکہ کے عالمی طاقت ہونے کا ایک راز اس بات میں بھی مضمر تھا کہ وہ دنیا کے تجارتی راستوں کا تھانیدار ہے۔ اس اجارہ داری کو توڑنے کی خاطر چین نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے تحت دنیا کو خشکی کے ذریعے منسلک کرنے کا پروگرام شروع کردیا ۔ اسی طرح بحر جنوبی چین میں موجود کچھ جزائر پر چین نے اپنے فوجی اڈے بنالیے ہیں تاکہ اپنے تجارتی راستوں کی حفاظت کرسکے۔ سب سے اہم‘ اعلی ٹیکنالوجی میں امریکہ کا قائدانہ کردار ختم ہورہا ہے۔ کچھ عرصہ سے چین اعلی سطح کی ٹیکنالوجی میں امریکہ کے مقابل آگیا ہے جیسے ٹیلی کام شعبہ میں فایئو جی ٹیکنالوجی ۔ اس ٹیکنالوجی کے آنے سے دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ اسی لیے اس نے چینی کمپنی ہواوے پر پابندیاں عائد کیں جو فایئو جی ٹیکنالوجی میں بہت پیش رفت کرچکی ہے۔ ایک اہم معاملہ امریکی ڈالر کی عالمی کرنسی کی حیثیت کا ہے جو اب خطرہ میں ہے۔امریکہ کا سپر پاورکے طور پر رتبہ قائم رکھنے میں ڈالر کا اہم کردار ہے۔ چین نے امریکہ کے ٹرژری بل یعنی ڈالر خریدے ہوئے ہیں جس وجہ سے ڈالر کی قیمت مستحکم ہے۔ گزشتہ سال کے اختتام پر چین کے پاس امریکہ کے ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے ٹرژری بل تھے۔ اگر چین انہیں بیچنا شروع کردے تو امریکہ کوخاصا نقصان ہوگا ۔ یہ اشارے مل رہے ہیں کہ چین‘ روس اور ایران ایک دوسرے سے تجارت کے لیے امریکی ڈالرکا استعمال ترک کرکے اپنی کرنسیاں استعمال کرنے جارہے ہیں۔ اگر ڈالر کی عالمی کرنسی کی حیثیت کو نقصان پہنچتا ہے تو امریکہ کی سپر پاور کے طور پرپوزیشن کمزور ہوگی۔ قصہ مختصر‘دنیا میں طاقت کا توازن مستقل طور پر تبدیل ہورہا ہے۔ چین جلد ہی ایسا ملک بننے جارہا ہے جو امریکہ کے متوازی اور اسکے برابر کی طاقت ہوگا۔ یہ بات امریکہ کو ہضم نہیںہورہی۔امریکہ دنیا پر اپنی چودھراہٹ بچانے کی خاطر چین سے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرتا جارہا ہے۔