امریکہ نے پاکستان کے لیے فوجی تربیت کا پروگرام معطل کر کے ایک بار پھر غیردوستانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں اداروں کی طرف سے جو تفصیل فراہم کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا ہے کہ تربیتی پروگرام معطل ہونے کی صورت میں پاکستان کے فوجی اہلکار و افسر اب امریکی نیول وار‘ نیول سٹاف کالج‘ سائبر سکیورٹی اور دیگر فوجی امور سے متعلقہ پروگراموں میں شریک نہیں کئے جائیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ ایک حکمت عملی کے تحت پاکستان اور امریکہ کے فوجی تعلقات میں کمی کرتی آ رہی ہے۔ رواں برس کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے پاکستان سے دفاعی تعاون کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ حالیہ اقدام اسی فیصلے کی ایک کڑی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ رواں سال پاکستانی فوجی افسران کی امریکی اداروں میں تربیت کے لیے 66 نشستیں ختم کردی جائیں گی جبکہ وار کالج کا کہنا ہے کہ آئندہ سال کی فہرست میں کسی پاکستانی افسر کا نام شامل نہیں۔ 1947ء میں جب پاکستان آزاد ہوا تو اسے ا پنے سے کئی گنا بڑے ہمسائے بھارت کی جارحیت کا سامنا تھا۔ سوویت یونین کے توسیع پسندانہ عزائم نے امریکہ کے لیے کئی طرح کے خدشات پیدا کر رکھے تھے۔یہ وہ حالات تھے جب امریکی حکومت نے قائداعظم محمد علی جناح کو خیرسگالی پیغام بھیجا۔ قائداعظم نے اپنی 11 اگست والی تقریر میں امریکی نائب وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا۔ امریکہ چاہتا تھا کہ سوویت یونین کا فوجی و سیاسی اثر و رسوخ گرم پانیوں تک نہ پہنچے۔ پاکستان کی شکل میں اسے ایک ایسا قابل بھروسہ اتحادی دکھائی دیا جو سرد جنگ کی اعصاب شکن لڑائی کا دبائو برداشت کرسکتا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کا وعدہ کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان 1954ء میں دفاعی امداد کا ایک معاہدہ طے پایا جس کے فوراً بعد پاکستان کو فوجی امداد ملنے لگی۔ فوجی حکومتوں اور بھارت سے جنگ کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان پر کئی بار مختلف النوع پابندیاں عائد کیں۔ ان پابندیوں نے دوطرفہ تعلقات میں تلخی گھولی۔ 1979ء میں افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان اور امریکی انٹیلی جنس اداروں میں تعاون کا نیا دور شروع ہوا‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو روکا گیا۔ یہ تعاون 1980ء کی پوری دہائی کے دوران جاری رہا۔ اکتوبر 1990ء میں امریکہ نے پاکستان کے غیر اعلانیہ ایٹمی پروگرام پر اظہار ناراضی کے طور پر درجنوں نئے ایف سولہ طیاروں کی فراہمی معطل کردی۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد مزید پابندیاں لگا دی گئیں۔ اس دوران تزویراتی ترجیحات بدلنے سے امریکہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی طرف مائل ہونے لگا۔ نائن الیون کے واقعات نے امریکہ کو ایک بار پھر افغانستان کی طرف متوجہ کیا۔ افغانستان میں کارروائیوں کے لیے اسے پاکستان کی ضرورت پڑی۔ خراب ہو چکے تعلقات کو بحال کرنے کے لیے سماجی و فوجی شعبوں کے لیے نئے امدادی پروگرام شروع کئے گئے۔ فوجی تربیت کے مواقع بڑھائے گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ایک بار پھر پاکستان کو ان ممالک میں شامل کردیا جو سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کر رہے تھے تاہم اس دوران پاکستان میں امریکہ کی بار بار بدلتی ترجیحات نے یہ تاثر گہرا کیا وہ ناقابل بھروسہ اتحادی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے پاکستان سے کئی قسم کی مدد اور تعاون حاصل کیا مگر بدلے میں پاکستان میں دہشت گردی کے جو بھیانک واقعات شروع ہوئے ان کی روک تھام اور ہونے والے نقصان کی تلافی میں امریکی کردار مایوس کن دکھائی دیا۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدار میں آنا جہاں خود امریکی عوام کے لیے ایک ڈرائونا خواب ہے وہاں عالمی برادری بھی بے چینی محسوس کر رہی ہے۔ ٹرمپ نے صدر کا حلف اٹھاتے ہی مسلم ممالک‘ مشرق وسطیٰ‘ جنوب مشرقی ایشیا اور افغانستان سے متعلق پالیسیاں بدلنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے مسلم ممالک کے گرد خطرات بڑھا کر انہیں اسلحہ خریداری کے نئے بھاری معاہدے کرنے پر مجبور کیا۔ اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا متنازع فیصلہ کیا‘ بھارت کو جنوب مشرقی ایشیا میں اپنا تزویراتی اور تجارتی شراکت دار قرار دیا۔ صدر ٹرمپ نے جنوب ایشیا کے لیے جو پالیسی پیش کی اس میں پاکستان کے کردار کو کمزور کیا گیا۔ پاکستان سے سفارتی اور فوجی تعلقات میں کمی کا فیصلہ کیا گیا ‘ افغانستان میں پاکستان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے پر زور دیا گیا۔ صدر ٹرمپ اور ان کے رفقاء کا خیال ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ٹھیک طور پر ادا نہیں کیا۔ امریکہ کی طرف سے اب پاکستان سے صرف یہ مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ وہ امریکی مفادات کے لیے خطرہ بننے والے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنے علاقوں میں کارروائی کرے بلکہ اس پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ بھارت کے مفادات کے لیے خطرہ بننے والے گروہوں کے خلاف بھی کارروائی کرے۔ ممبئی حملوں کے ملزمان کے متعلق امریکی انتظامیہ جس لہجے میں بات کرتی ہے اس کا پس منظر مذکورہ حالات ہیں۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج بھارت سے کئی گنا کم ہونے کے باوجود اپنی اہلیت کے اعتبار سے زیادہ موثر اور مستعد ہیں۔ امریکہ کسی خطے کی سکیورٹی میں اپنا عمل دخل بڑھا کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں ایسے حلقے موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں دہشت گردانہ وارداتیں کوئی تیسری طاقت کروا رہی ہے۔ چند روز قبل روس کے نائب وزیر دفاع پاکستان تشریف لائے تھے۔ ان کی آمد کے موقع پر پا کستان اور روس کے مابین فوجی تربیت اور افغانستان میں قیام امن کے مشترکہ مقاصد کے لیے کچھ معاہدوں پر اتفاق ہوا۔ ان معاہدوں میں نیول تربیت کے پروگرام بھی شامل ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ سی پیک کی شکل میں ابھرنے والے علاقائی اتحاد کو غیر موثر بنانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ پاکستان‘ چین اور روس کا اتحاد خطے میں امریکی اثر ورسوخ کو کم کرسکتا ہے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ امریکی فوجی تربیت کا فائدہ پاکستان کو نہ پہنچ سکے۔ ظاہر ہے ان حالات میں پاکستان کے لیے جو مشکلات آئیں گی وہ اسے خودانحصاری کی طرف بڑھنے کی ترغیب دیں گی۔ دوسرا یہ ہوگا کہ پاکستان دوسرے ممالک کے ساتھ فوجی تعلقات بڑھائے گا۔ دونوں صورتوں میں نقصان امریکہ کا ہوگا۔ پاکستان دفاعی شعبے میں پہلے ہی امریکہ پر انحصار تقریباً ختم کر چکا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اپنی ناسمجھی کے باعث ایک دیرینہ اتحادی کو کھو رہی ہے‘ ساتھ ہی ایسی تزویراتی تبدیلیوں کو دعوت دے رہی ہے جو خطے سے امریکہ کے قدم اکھاڑ دیں گی۔