وزیر اعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی ایچ بی او کو انٹرویو کے دوران امریکہ کو افغانستان میں فوجی کارروائیوں کے لئے پاکستان میں اڈے دینے سے صاف انکار کیا ہے۔ وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ امریکی حکومت کو اس بات کی اجازت دیں گے کہ سی آئی اے کے ذریعے پاکستان کی سرحد پار کر کے القاعدہ‘ داعش اور طالبان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کرے۔ وزیر اعظم اس بات سے آگاہ ہیں کہ امریکہ جیسی طاقت کی کسی فرمائش یا مطالبے کو انکار کرنے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے تاہم ان کا یہ موقف نیا نہیں۔ جب نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور امریکہ نے پاکستان سے زمینی و فضائی حدود کے استعمال اور انٹیلی جنس کے شعبے میں مدد کا مطالبہ نہ کرنے پر ملک کو تورا بورا بنانے کی بات کی تو جن رہنمائوں نے امریکی حکمت عملی پر کھل کر تنقید کی عمران خان ان میں نمایاں تھے۔ یہ عمران خان ہی تھے جنہوں نے افغانستان میں موجود بین الاقوامی فوجوں کے لئے پاکستان کے راستے سپلائی کی مخالفت کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک دھرنا بھی دیا۔ امریکہ کو اڈوں کی ضرورت کا معاملہ چند ہفتے اس وقت سامنے آیا جب پینٹا گان کے ایک ذمہ دار عہدیدار نے ٹویٹ کیا کہ پاکستان امریکہ کو انخلا کے دوران اور اس کے بعد افغانستان میں کارروائیوں کے لئے فوجی اڈے دینے پر تیار ہو گیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اجازت نہ ملنے کے باوجود پینٹا گان کا یہ ٹویٹ معنی خیز تھا۔ اس پر پاکستان میں سوال اٹھائے جانے لگے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان اڈے دینے کی تردید کر چکے تھے تاہم سی آئی اے چیف کے دورے کے بعد جو سرگوشیاں بلند ہو رہی تھیں وہ وزیر اعظم عمران خان کے دوٹوک جواب سے بند ہو جانی چاہیں۔نائن الیون کے بعد امریکہ کو افغانستان میں دہشت گردوں پر حملوں کے لیے فضائی اور زمینی مدد کی ضرورت تھی جس کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیاں دو معاہدے ہوئے تھے۔ان معاہدوں کے مطابق اے ایل او سی کے تحت امریکہ کو فضائی اڈے اور جی ایل او سی کے تحت زمینی راستے استعمال کرنے کی اجازت ملی ۔ اس دوران امریکہ بلوچستان میں خضدار کے نزدیک واشک کے علاقے میں قائم شمسی ائیربیس اور سندھ کے جیک آباد میں واقع شہباز ائیربیس کو استعمال کرتا رہا ہے۔ ان دونوں ہوائی اڈوں سے امریکہ کے طیارے اڑا کرتے جبکہ شمسی ائیربیس کو امریکی حکام ڈرون حملوں کے لیے بھی استعمال کرتے ۔ شہباز ائیربیس کو سنہ 2011 سے پہلے ہی بند کر دیا گیا تھا مگر شمسی ائیربیس امریکہ کی جانب سے نومبر 2011 میں مہمند ایجنسی میں ہونے والے سلالہ حملے کے بعد پاکستان کی ناراضی کے باعث بند کیا گیا تھا۔اس کے بعد امریکہ پر پاکستان کے فضائی اور زمینی راستے استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وقتی طور پر امریکہ کو افغانستان تک لاجسٹک پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی تاہم بعد میں امریکہ کو زمینی راستے فراہم کرنے کی اجازت دے دی گئی اور شمسی ائیربیس کو امریکہ سے خالی کروا لیا گیا ۔ افغانستان سے انخلا کے لئے ہو سکتا ہے کہ امریکہ کو زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کی محدود اجازت ہو مگر جنگی ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دینا خود کو مستقبل میں نئے تنازعات میں دھکیلنے کے مترادف ہو گا۔ ممکنہ طور پر افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر زمینی راستے سے ممکنہ طور پر افغانستان کی حکومت اور شہریوں کو مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی ہونے کے نتیجے میں شدید ترین مالی نقصان کے علاوہ پاکستان خود براہ راست دہشت گردی کا نشانہ بن گیا۔امریکہ نے اس دوران انڈیا سے بھی تعلقات بڑھا لیے تھے جس کے بعد پاکستان نے ان دونوں معاہدوں پر نظر ثانی کی ۔پاکستان اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں‘ امریکہ اپنے مفادات کے تابع کام کرتا ہے‘ مفاد کے حصول کی خاطر وہ فوجی طاقت اور ڈالر دونوں کا بے دریغ استعمال کرتا آیا ہے۔ پاکستان ایک بار نہیں تاریخی طور پر متعدد بار امریکی بے مروتی اور بے وفائی کا زخم سہ چکا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکہ کو پچاس کی دہائی میں اڈے دے کر پاکستان نے علاقائی سطح پر اپنی مشکلات میں اضافہ کر لیا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے جو تعاون حاصل کیا اس کے جواب میں نہ تو طے شدہ معاوضہ ادا کیا اور نہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ کشمیر جیسے تنازعات پر مدد فراہم کی۔ یہ صورت حال مزید ابتر یوں ہوئی کہ امریکی شہ پر مودی حکومت نے کشمیر کی آئینی حیثیت یکطرفہ طور پر تبدیل کر دی‘ دو سال سے کشمیری باشندے جابرانہ محاصرے میں ہیں۔ امریکہ نے سلامتی کونسل کے اہم رکن کے طور پر بھی کوئی تسلی بخش کردار ادا نہ کیا۔ پاکستان نے اڈوں کی فراہمی سے انکار کر کے خطے سے شکست کھا کر روانہ ہوتے امریکہ کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان مزید کسی مسلح تنازع کا حصہ نہیں رہنا چاہتا‘ پاکستان نے اپنے لئے پرامن بقائے باہمی اور معاشی ترقی کا راستہ منتخب کیا ہے۔ اسی لئے امریکہ کو اڈوں کی فراہمی سے انکار بظاہر مشکل فیصلہ ہے لیکن یہ سچ ہے کہ تہتر برس سے پاکستان جس آزادی‘ خود مختاری ‘ خود کفالت اور خوشحالی کے خواب دیکھتا آیا ہے وہ اس انکار سے شرمندہ تعبیر ہو سکتے ہیں۔