جنیوا میں 16 جون کو امریکی صدر جوبائیڈن اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی ہونے والی ملاقات کے بعد امریکی صدر نے کہا ہے یہ ہمارے باہمی مفاد میں ہے۔ امریکی صدر کے ان الفاظ سے ہی دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری کے امکانات کے بارے میں اشارہ موجود ہے۔ طویل عرصہ سے اس ملاقات کا انتظار کیا جارہا تھا تاہم اس ملاقات کے بعد بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں خاص بہتر کی توقع نہیں کی جا رہی۔ نہ ہی دونوں اطراف اس کی امیدیں کی جا رہی تھیں کہ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری ممکن ہوسکتی ہے جو موجودہ دہائی کی بدترین سطح پر ہیں۔ واشنگٹن اور ماسکو ایک دوسرے کو مخالف سمجھتے ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔ سٹریٹجک اور نظریاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو تعلقات کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات کی ازسرنو بحالی اب ماضی کا قصہ بن چکی۔ جولائی 2018ء میںہیلسنکی میں ہونے والی سربراہی کانفرنس نے معاملات کو مزید خراب کردیا ہے۔ بہرحال تین گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات مجموعی طور پر بہتر ماحول میں ہوئی۔ ملاقات میں دونوں رہنمائوں کے معاملات کو سنبھالنے کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات پر اتفاق کیا تاکہ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان تنائو کو کم کیا جا سکے۔ یہ ایک بہترین فارمولا ہے کہ اختلافی امور کو چھوڑ کر جہاں تک ممکن ہو کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے ذریعے معاملات کے حل کی طرف بڑھا جائے۔ کانفرنس کا اختتام مشترکہ اعلامیہ پر ہوا جس میں دونوں رہنمائوں کے دوران 20 جنوری کو ٹیلی فونک گفتگو میں نیو سٹارٹ ٹریٹی پر اتفاق کیا گیا تھا جو فروری میں ختم ہونے والا تھا مگر اس معاہدے کی اگلے پانچ سال تک تجدید کرائی گئی جس سے دونوں ممالک کو متبادل معاہدے کے لیے تیاری کا وقت مل گیا ہے۔ مزید دونوں رہنمائوں نے سفیر واپس بیجنے کا فیصلہ بھی کا ہے جو اپریل میں واپس بلائے گئے تھے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا انصاف گریٹر مڈل ایسٹ کے حوالے سے مثبت سفارتکاری پر ہے۔ سب سے اہم معاملہ شام کا ہے امریکی حکومت شام میں انسانی بنیادوں رپ اقدار کی فراہمی میں خاص طور پر ترکی کی سرحدی علاقوں تک رسائی میں روس کا تعاون چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران کا جوہری تنازع بھی اہم مسئلہ ہے جس پر واشنگٹن اور ماسکو تعاون پر بات کرسکتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے تہران کے ساتھ جوہری معاہدے میں امریکی واپسی کے حوالے سے مذاکراتی عمل شروع کیا ہے۔ روس نے اس معاہدے میں سگنیچری ہونے کے ساتھ ایران کا اہم اتحادی بھی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان بھی دونوں ممالک کے لیے ب اہمی مفاد کا موضوع ہوسکتا ہے۔ امریکہ نہ ہی روس پر چاہے گا کہ افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد کابل پر طالبان کی کلی حکرانی ہو۔ نیٹو افواج کی واپسی کے بعد ماسکو امریکی توسیع پسندی کے مقابلے میں خطے میں انتہا پسندی کے اضافے کے حوالے سے زیادہ خوفزدہ ہے۔ اس معاملے میں بھی دونوں ممالک کے تعاون کے امکانات موجود ہیں‘ اگر امریکہ اور روس اس معاملات میں باہمی مفاد تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو حالیہ کانفرنس کو بنیادی اہمیت حاصل ہو جائے گی تاہم بنیادی مسائل پر کسی سمجھوتے کا امکان کم ہی ہے۔ بائیڈن نے کریملن میں حزب اختلاف اور یوکرائن جنگ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ امیرکہ روس کی ان کمزوریوں کو بارگیننگ کے طورپر استعمال کر سکتا ہے۔ بائیڈن کا پوٹن کو قابل دشمن کہنا ایک احترام کی علامت ہے تاہم اس ملاقات میں یوکرائن کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی حالانکہ ملاقات سے ہفتوں پہلے یوکرائن عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہا تھا اس طرح پوٹن امریکہ سے تجارتی مراعات کے خواہش مند ہیں مگر اس حوالے سے پیش قدمی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ ملاقات کے بعد حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ماسکو انتظامیہ ملاقات کے بعد بھی واشنگٹن کو مشکوک نظروں سے دیکھتی رہے گی کہ امریکہ روس میں قیادت کی تبدیلی چاہتا ہے اسی طرح امریکہ بھی روس کو عالمی سطح پر ابھرتے چین کا اتحادی شمار کرتا رہے گا۔ بائیڈن کی پوٹن سے ملاقات کا وحد مقصد روس کو یہ باور کروانا تھا کہ امریکہ روس کے امریکہ کے داخلی معاملات میں مداخلت اور سائبر حملوں اور سیاسی معاملات میں مداخلت کا بھرپور جواب دے گا۔ کیا ان حالات میں کم از کم باہمی مفادات کا فارمولا کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ دونوں ممالک میں مخاصمت اور تنائو مزید شبہات کو جنم دے رہی ہے۔ اس کے باوجود ماسکو اور واشنگٹن تنائو میں کمی کے کچھ زیادہ خواہش مند بھی نہیں۔ امریکہ کا اس وقت اصل مسئلہ چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنا ہے تو روس اپنی تمام تر توجہ اپنے داخلی معاملات کو سلجھانے اور اداروں کی تشکیل نو پر مذکور کرنا چاہتا ہے۔ اس سب کے باوجود اس سمٹ سے ایک رستہ ضرور نکلا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ روس کے لیے کیا یہ کم ہے کہ امریکہ روس کو اہمیت دے رہا ہے گویا روس امریکہ کے ہم پلہ ہے جبکہ بائیڈن کو بھی روس کو باور کروانے کا موقع ملا ہے۔ اس ملاقات کو اگر وسیع کینوس میں دیکھا جائے تو ایک بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ امریکہ کے لیے روس کو بش اور اوبامہ کے دور کی طرح اپنے مطابق ری سیٹ کرنے کا زمانہ اب گزر چکا ہے۔ اس ملاقات میں ہمارے لیے روس کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کے بارے میں ولادی میر فروولوف کے قابل احترام دشمن کے الفاظ ثبوت ہیں جو اس بات کی اشارہ ہیں کہ اب روس عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے۔(ترجمہ:ذوالفقار چودھری)