وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کسی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا۔ وزیر اعظم نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ایران ‘ امریکہ اور سعودی عرب کے دورے کی ہدایت بھی کی ہے۔ علاوہ ازیں امریکی وزیر دفاع نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کیا۔ جس میں مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہونے کے ناطے، دنیا بھر میںہر قسم کی جنگ وجدل کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایران اور سعودی عرب کے مابین دیرینہ چپقلش کے خاتمے کے لئے کردار ادا کیا ۔ اب امریکہ اور ایران کے مابین بھی کسی جنگ کے حق میں نہیں ہے۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر امریکی حملے کے بعد پاکستان نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرتے ہوئے فریقین کو صبر و تحمل سے کام لینے پر زور دیا۔ پاکستان نے یہ بھی باور کرایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی قطعاً اجازت نہیں دے گا۔ تاہم امریکہ اور ایران کے مابین جنگ ہونے سے خطے کے سبھی ممالک متاثر ہونگے، اس کا نقصان پاکستان جیسے غریب ممالک کو زیادہ ہو گا۔ غریب ملکوں کے عوام کی زندگیاں مزید اجیرن بن جائیں گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنے موقف کو دھراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امن کا شراکت دارہے اور تنائو ختم کرانے اورتنازعات روکنے کے لئے کردار ادا کرتا رہے گا۔ اسی بنا پر وزیر اعظم نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ایران‘ سعودی عرب اور امریکہ کے دورے کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ فریقین کو امن و امان برقرار رکھنے پر قائل کیا جا سکے۔ اس سے قبل امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی لانے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کی سفارت کاری کی کاوشوں کو سراہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے بھی پاکستان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے خطے کو ہر قسم کی شورش اور پراکسی وار سے بچانے کے اقدامات کرے۔ ایران کی طرف سے عراق میں 2امریکی اڈوں پر میزائل داغنے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے جوابی کارروائی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ ایران نے بھی اس کے جواب میں کہا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتا کیونکہ جنگ کسی صورت میں ایران اور اس خطے کے حق میں نہیں ہو گی۔ خدانخواستہ اگر جنگ شروع بھی ہوتی ہے تو وہ ماضی کی جنگوں سے مختلف ہو گی اور کچھ بعید نہیں کہ شروع ہونے والی جنگ ایٹمی وار میں تبدیل ہو جائے جس سے دنیا میں کچھ نہیں بچے گا۔ اس لئے یہ صرف پاکستان کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ اقوام عالم کا بھی فرض ہے کہ وہ دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے کردار ادا کرے۔ یہ جنگ اور کشیدگی دنیا کے کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ جنگ کی صورت میں ایران کے پاس بڑا ہتھیار آبنائے ہرمز بند کرنا ہے، جس سے پوری دنیا کو 40فیصد تیل کی ترسیل رک جائے گی۔ تجارت پر برے اثرات مرتب ہونگے۔ اس لئے عالمی برادری اور خصوصاً نیٹو اتحادی ممالک کو امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں ایسی صورتحال بنانے سے روکنا چاہیے جس کے اثرات سے پوری دنیا متاثر ہو۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی امریکی وزیر دفاع کے ٹیلی فونک رابطے میں بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان خطے کی موجودہ صورتحال میں کمی لانے کا خواہاں ہے۔ دراصل امریکہ اور ایران کی موجودہ صورتحال میں مسئلہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میڈیا کی سرخیوں سے غائب ہو گئے ہیں۔ کیونکہ پاکستان نے ایک بڑی جدوجہد کر کے مودی سرکار کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے واضح کیا تھا۔ موجودہ صورتحال میں عالمی میڈیا کی توجہ بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے ہٹ گئی ہے اور بھارت نے مسلمانوں کو بزور طاقت کچلنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اسی لئے اگر خطے میں ایسے ہی افراتفری موجود رہی تو پھر کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو جائے گا۔ اس لئے او آئی سی بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے خطے میں جنگ کے منڈلاتے بادلوں کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرے۔ آرمی چیف نے چین اور ایران کے سفیروں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور خطے کی موجودہ صورتحال میں ہمسایہ ممالک کو بھی کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی فی الفور ایران،امریکہ اور سعودی عرب کے دورے کر کے فریقین کو افہام و تفہیم سے مسائل حل کرنے کا کہیںگے ۔ ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے مسلمان ملکوں کو بیرونی خطرات سے بچنے کے لئے متحد ہونے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ اگر مسلمان ممالک اکٹھے نہیں ہوتے تو پھر ماضی کی طرح ایک ایک کر کے مسلمان ملکوں کا تورا بورا بنانے کا کام شروع رہے گا۔ افغانستان ‘ عراق ‘ شام‘ لیبیا اور یمن کا کیا حال ہوا؟ سب اس سے واقف ہیں۔ اب بھی مسلم امہ اگر خواب غفلت سے بیدار نہ ہو ئی ، آپسی اختلافات ختم کر کے کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہ ہوئی تو پھر ماضی کی طرح یوں ہی انہیں ایک ایک کر کے نہ صرف کمزور کیا جائے گا بلکہ پراکسی وار شروع کر کے ملکی نظام تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ ترکی‘ ملائشیا اور پاکستان پہلے ہی مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب بھی اگر اس میں شامل ہو جائیں تو مسلمان اس خطے میں ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آ سکتے ہیں۔ اس لئے علاقائی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھی جائیں۔