27اکتوبر2020ء منگل کوبھارت اور امریکا نے اپنے باہمی تعلقات کو ایک نئی جہت دیتے ہوئے ایک اہم دفاعی معاہدے Basic Exchange and Cooperation Agreement (BECA) پربھی دستخط کردیے۔ بھارت اور چین کے درمیان جاری فوجی کشیدگی اوربھارت پاکستان تنازعات کے تناظر میں یہ معاہدہ بڑاتباہ کن ثابت ہوگا ۔بی ای سی اے معاہدے پر دستخط کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہم بھارت کی خودمختاری کو لاحق کسی بھی خطرے سے نمٹنے میں ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ خطرہ خواہ چین کی طرف سے ہو یا کسی دوسری طرف سے۔ امریکا کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ دہلی میں پومپیو نے چین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قیادت اور شہریوں نے دیکھا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی جمہوریت کی دوست نہیں ہے، وہاں نہ تو قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی شفافیت۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ بھارت اور امریکا صرف چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ہی نہیں بلکہ تمام طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون کو مستحکم کرنے کے خاطر تمام اقدامات کررہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ برس سائبر امور کے حوالے سے باہمی تعاون میں کافی توسیع ہوئی اور دونوں ملکوں کی بحریہ نے بحیرہ ہند میں مشترکہ جنگی مشقیں کیں۔26اکتوبرکوامریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر بھارت کے ساتھ سالانہ دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ اوروزارت دفاع جسے ’’ٹوپلس ٹو‘‘کا نام دیاگیاہے کی میٹنگ کے سلسلے میں دوروزہ دورے پر دہلی آئے ہوئے تھے۔۔ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں مائیک پومپیو کا بھارت کا یہ چوتھا دورہ ہے۔امریکی وزیرخارجہ اوروزیردفاع نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ باہمی تعاون نیز علاقائی اور عالمی اہمیت کے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔ امریکی وزرا نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال سے بھی ملاقات کی۔امریکا اور چین کے مابین تجارتی تنازع اور کورونا وائرس کے پس منظر میں مائیک پومپیو نے بیجنگ پر سخت نکتہ چینی کی۔ انہوں نے جنوبی اور مشرقی چینی سمندر، ہانگ کانگ، تائیوان وغیرہ کے معاملات کا ذکر کرتے ہوئے کہا اپنے عوام اور پارٹنرز کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے استحصال، بدعنوانی اور دھمکیوں سے بچانے کے لیے، اب پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ اس موقع پربھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکا ایک ساتھ مل کر علاقائی اورعالمی تبدیلیاں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور گزشتہ دو عشروں کے دوران دونوں کے درمیان باہمی تعلقات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے امریکا کے ساتھ بی ای سی اے معاہدہ کو ایک اہم معاہدہ قرار دیا۔اس معاہدے کو اس لحاظ سے اہم قرار دیا جارہا ہے کہ اب بھارت کی امریکی ’’سیٹلائٹ ڈیٹا‘‘ تک رسائی ہوجائے گی اور بھارت امریکا کے ’’جیو اسپیشل نقشوں‘‘ کا استعمال کرسکے گا اوراس پرمستزاد یہ کہ ا سے بھارت اپنے ڈرونز اور میزائل سسٹم کی خامیوں کودورکرنے میں مدد ملے گی۔ اس معاہدے سے’’ آٹومیٹیڈ ہارڈویئر سسٹمز اور کروز بیلسٹک میزائلوں‘‘ سمیت دیگر ہتھیاروں کو نشانہ لگانے کی صلاحیت بڑھ جائے گی۔یہ معاہدہ ایسے وقت ہوا ہے جب بھارت، امریکا سے 30جنرل اٹامکس ایم کیو۔9 گارجین ڈرونز خریدنے پر غور کررہا ہے۔ جبکہ امریکی حکومت کے مطابق گذشتہ برسوں کے دوران بھارت امریکا سے 21ارب ڈالر کا فوجی ساز و سامان خرید چکا ہے۔ بھارت اور امریکا کے درمیان پہلے بھی انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے ہو چکے ہیں اور 2017ء میں ڈوکلام میں چین کے ساتھ کشیدگی کے دوران امریکا نے مبینہ طورپر بھارتی فوج کو چینی فوجیوں کی نقل و حرکت کی خفیہ معلومات فراہم کی تھیں۔خیال رہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری2020ء میں اپنی ملاقات کے دوران بھی اس معاہدے کے طے پاجانے پرمتفق ہوگئے تھے ۔امریکی وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے وزرا کے درمیان ہونے والی بات چیت چار نکات پر مرکوز رہی، جن میں علاقائی سلامتی و تعاون، دفاعی معلومات ایک دوسرے سے شیئر کرنا، عسکری تعاون اور دفاعی ساز و سامان کی تجارت شامل ہیں۔ بھارت نے چین کے خلاف امریکی بندوق کے لئے جب اپناکندھاپیش کردیاتو بھارت کے رول کے حوالے سے امریکا کے نقطہ نظر میں قابل ذکر تبدیلی اور گرمجوشی آئی ہے۔ امریکا کے نائب وزیر خارجہ اسٹیفن ای بیگن گزشتہ 12 اکتوبر2020ء کو بھارت کے تین روزہ دورے پر آئے تھے جبکہ اس سے ایک ہفتے قبل بھارتی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے ٹوکیو میں مائیک پومپیو سے ملاقات کی تھی۔ اور اب26اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے بھارت کا دو روزہ دورہ کیا۔تویہ اجلاس ،یہ مٹینگیں، یہ ملاقاتیں، یہ مذاکرات اوریہ دورے صرف اورصرف یہ بتانے کے لئے منعقد ہوئے کہ’’ نریندرمودی آگے بڑھوں ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ لیکن چین،روس،ترکی ،ایران اورپاکستان مل کرامریکہ ،بھارت گٹھ جوڑ کاتوڑ کرسکتے ہیں کیونکہ امریکہ اگرچہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت ہے لیکن یہ ایک زوال پذیر سامراج ہے ۔ افغانستان اور عراق میں شکست نے امریکی سامراج کی بتدریج کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کی عکاسی کرتے ہیںاور وہ ماضی کا رعب و دبدبہ کھو چکا ہے۔ اس کمزوری کے نتیجے میں جنم لینے والے طاقت کے خلا کو پر کرنے کیلئے چین اور روس سرفہرست ہیں جبکہ ترکی،ایران اور پاکستان اپنے تعلقات کونئی جہت دے کر آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسی کیفیت میں بھارتی سامراج کوامریکہ کاکولہوبیل بن جانے پررسوائی ہوگی اوراسے اپنے قبیح کردار اوراپنے مہیب منصوبوں کو وسعت دینے کا موقع نہیں مل گا اور دوسامراجی قوتیں بھارت اورامریکہ بالادستی کے لئے جس جنگ کے لڑنے کے لئے جنوبی ایشیاکواکھاڑہ بنانے کی تگ ودوکررہے ہیں انہیں اس میں ناکامی کامنہ دیکھناپڑے گا۔