5ستمبر 2018ء بدھ کوٹرمپ کے وزیرخارجہ مائیک پومپیو پاکستان کے چندگھنٹوں کے مختصر دورے کے بعد دہلی پہنچے اوراگلے روز جمعرات 6 ستمبر 2018ء کوامریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے نئی دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر دفاع نرملا سیتارمن سے مذاکرات کیے۔ نئی دہلی میں ٹوپلس ٹو مذاکرات کے بعد ایک دفاعی معاہدے پردونوں ممالک کے اعلیٰ عہدے داروں نے دستخط کیے ہیں جس کے تحت عسکری ماہرین کے مطابق بھارتی فوج کے لیے حساس نوعیت کے امریکی فوجی ساز و سامان اور ڈرون طیارے حاصل کرنے کے راستے کھل جائیں گے۔ اس معاہدے کا ایک اہم عنصر خفیہ دفاعی معلومات کا تبادلہ بھی ہے۔ نیویارک ٹائمز سمیت عالمی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق یہ معاہدہ نئی دہلی کے لیے نہ صرف انتہائی جدید امریکی ہتھیاروں کی خریداری کی راہ ہموار کر دے گا بلکہ بھارتی فوج انتہائی حساس نوعیت کی امریکی فوجی ٹیکنالوجی بھی مشترکہ طور پر استعمال کر سکے گی۔نیویارک ٹائمز نے اس بارے میں اپنی خبر میں لکھا ہے کہ یہ معاہدہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب دونوں ملک امریکا اوربھارت چین کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔دراصل امریکہ بھارت کوخطے کا تھانیدار بنانے کے لئے اسکے ساتھ دفاعی تعاون کے ایک نئے معاہدے کو حتمی شکل دینا چاہتا ہے جس سے بھارت کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ واضح رہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں امریکہ اور بھارت کی باہمی تجارت میں قابل قدر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2016میں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کا حجم سو ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا جو کہ 90کی دہائی میں صرف پانچ ارب ڈالر کے قریب تھا۔ امریکہ کی یہ دیرینہ کوشش رہی ہے کہ خطے میں بھارت فوجی اور اقتصادی لحاظ سے چین کے متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو قابو کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔لیکن سوال یہ ہے کہ جب بھارتی فوج کی اندرونی حالت یہ ہوکہ اس میں خودکشیوں کے اعدادوشماربڑھ رہے ہیں کیاایسی بزدل فوج کے کندھے پرسامان لادکرچین اورافواج پاکستان کے مدمقابل کھڑاکیاجاسکتاہے۔ 6ستمبر2018ء جمعرات کونئی دہلی میں طے پائے جانے والے اس معاہدے کو جسے ’’کمیونیکیشن کمپیٹیبلٹی اینڈ سکیورٹی ایگریمنٹ‘‘کا نام دیا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں ایک سنگ میل قرار دیا جبکہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے مطابق اس سے بھارتی فوج کی دفاعی صلاحیت اور تیاری بہت بڑھ جائے گی۔ اس معاہدے کے بعد امریکہ کی جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی جس میں ہتھیاروں سے لیس نگرانی کرنے والے بغیر پائلٹ کے ڈرونز بھی شامل ہیں ان کی انڈیا منتقلی بھی ممکن ہو جائے گی۔ آبزرور فانڈیشن ریسرچ کے سینئر تجزیہ کار کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ ایک بہت اہم معاہدہ ہے جس کا بحری دفاعی شعبے میں بھی بھارت کو بہت فائدہ ہو گا تاہم اس کاکہناہے کہ اس معاہدے سے بھارتی فوج کے زیرِ استعمال غیر امریکی اسلحے کے بارے میں کچھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں، مثلا بھارتی فضائیہ میں شامل روسی ساخت کا اسلحہ اور آلات، اوربحریہ کے جہازوں میں لگے آلات اور روسی میزائل نظام ایس 400بھی ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات کے باوجود بھارت اب بھی روسی ہتھیاروں کا بڑا خریدار ہے اور اس کے اسلحہ کا تقریبا 70 فیصد حصہ اب بھی روسی ہتھیاروں اور آلات پر مشتمل ہے۔ایک معتبر رپورٹ کے مطابق بھارت روس سے 6 ارب ڈالر مالیت کے جدید میزائل نظام خریدنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔جبکہ سٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برس میں بھارت کے مجموعی ہتھیاروں کی خریداری کا 62 فیصد حصہ روس سے خریدا گیا۔ 13 مار چ 2018ء کو سویڈن کے ایک سرکردہ تحقیقی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایاکہ بھارت نے گزشتہ دس برس میں سو ارب ڈالر سے زیادہ نئے ہتھیاروں اور دفاعی نظام کی خرید پر صرف کیے۔رپورٹ میں کہاگیاکہ اس طرح بھارت گزشتہ دس برس سے جنگی ہتھیار خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ پچھلے دس برس کے دوران بھارت کے ہتھیاروں کی خرید میں 24 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے پوری دنیا میں ہتھیاروں کی برآمدات کے اس جائزے میں کہا ہے کہ اسلحے کی خریداری میں مشرق وسطی کے ممالک اور ایشیا سب سے آگے ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ، روس، فرانس ، جرمنی اور چین ہتھیار برآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک ہیں۔انسٹی ٹیوٹ کے سینئر محقق سیمون ٹی ویزے مین کاکہناتھاکہ اس رپورٹ میں بڑے جنگی ہتھیاروں کی خرید اور برآمدات کی بنیاد پر ملکوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ لیکن اس میں ان ہتھیاروں کی خرید پر آنے والے اخراجات کو سامنے نہیں رکھا گیا ہے۔سیمون نے بتایا کہ 2013-17ء کے دوران انڈیا بڑے ہتھیار خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک رہا۔ پوری دنیا میں جتنے ہتھیار بکے اس کا بارہ فیصد اکیلے انڈیا نے خریدا۔ 2008ء سے 2017ء تک دس برس میں بھارت نے ہتھیاروں کی خرید میں جوبیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ روس انڈیا کا سب سے بڑا سپلائیر ہے لیکن پچھلے دس برس میں امریکہ سے ہتھیاروں کی خریدی میں 557فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسرائیل انڈیا کا تیسرا سب سے بڑا دفاعی سپلائیر ہے۔سیمون ویزے مین کاکہناتھا کہ چین اور پاکستان سے کشیدگی انڈیا کی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی مانگ میں اضافے کا سبب ہے کیونکہ وہ خود بڑے جنگی ہتھیار بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بھارت نے گزشتہ دس برس کی اس مدت میں نئے جنگی جہازوں، میزائل، آبدوزوں، ٹینکوں، ہاویٹزر توپوں، سپیشل طیاروں اور دوسرے ہتھیاروں کی خرید کے لیے سودے کیے۔حالیہ مہینوںمیں بھارت نے دفاعی اخراجات کے لیے 51 ارب ڈالر مختص کیے ہیں جس میں تقریبا 16 ارب ڈالر نئے ہتھیاروں اور جنگی ساز وسامان کے حصول کے لیے ہیں۔جنوبی ایشیامیں بھارت کااسلحہ ذخیرہ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے سیمون نے کہا ہتھیاروں کی بھارتی دوڑ سے یہ خطہ مسلسل کشیدگی کی گرفت میں ہے۔ اس کاکہناتھاکہ جوممالک ہتھیاروں کی خریداری سے مستقبل کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن دراصل اس سے خطے میں عدم تحفظ اور کشیدگی کے ماحول کو اور زیادہ ہوا مل رہی ہے۔انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ جین ایلیاسن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی خرید سے بین الاقوامی امن اور سلامتی پر پڑنے والے اثرات پر تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق ددونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون بڑھ رہا ہے اور دفاع کے شعبے میں امریکہ سے بھارت کی خریداری آئندہ برس اٹھارہ ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ والمارٹ اور امیزون جیسی بڑی امریکی کمپنیاںبھارت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ انڈین اخبار اکنامک ٹائمز کے مطابق 6 ستمبر 2018ء جمعرات کونئی دہلی میں امریکابھارت کے وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات میں امریکہ سے انڈیانے یہ درخواست کی کہ فی الحال وہ ایران سے تیل کی خرید ختم نہیں کرسکتا،کیونکہ یہ اس کی ضرورت بھی ہے اور اس کی خارجہ پالیسی کاحصہ بھی۔بھارت میں اس وقت تیل کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں ایک بڑا سیاسی موضوع ہیں اور عالمی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی روزانہ کم ہوتی قدر کی وجہ سے بھارت کے لیے ایران سے ملنے والے سستے تیل کا متبادل تلاش کرنا ٹیڑھی کھیر ہے۔ بہرکیف!امریکہ بھارت گٹھ جوڑسے چین اور پاکستان کی دوستی کے تقاضے یہ ہیں کہ جتنی یہ دوستی مضبوط بنیادوں پراستوارہواس سے امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کوشکست دی جاسکتی ہے ۔اس لئے سی پیک سمیت چین اورپاکستان اپنے اسٹیٹجیک تعلقات کو آگے بڑھاکربھارت کواس خطے میں تنہائی کااحساس دلادیں کیونکہ چین روس پاکستان اورایران پاکستان کی بڑھتی ہوئی قربت میں مزیداضافہ کرنے میں بہترین رول نبھاسکتاہے اورجس وقت یہ حکمت عملی کامیابی کی طرف گامزن ہوجائے گی توبھارت کی تنہائی یقینی ہوگی۔