مکرمی ! امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سے اسلاموفوبیا کو نہایت منظم انداز میں عالمی سطح پر پھیلایا گیا۔11 ستمبر 2001ء سے اب تک کے طویل سفر میں امریکی رہنماوں کو یہ انکشاف ہو اکہ ان کی قومی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن باہر نہیں بلکہ اندر ہے۔ براک اوبامہ اور جارج ڈبلیو بش کے ساتھ کام کرنے والے سابق سی آئی اے تجزیہ کار کے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی رعونت شکریہ کی مستحق ہیں۔ اسلامو فوبیا سے متعلق منظور ہونے والے حالیہ امریکی قانون میں اس خطرے کے اعتراف کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ جو بائیڈن نے صدر بننے کے بعد مشی گن کی رکن کانگریس ایلیسا سلوٹکن کو داخلی تحفظ کے محکمہ کی ایک ذیلی کمیٹی کا صدر بناکر اس مسئلہ کا حل سلجھانے کی ذمہ داری سونپی۔ انہوں یہ اعتراف کیا امریکہ کے لیے غیر ملکی دہشت گرد واحد سب سے بڑاخطرہ نہیں ہے۔ بیرونی دہشت گردی کا مفروضہ پرانا ہوچکا ہے۔ دنیا کے مہذب ترین امریکی معاشرے میں تشدد کے رحجان کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ گزشتہ سال میں233 افراد قتل اور618 زخمی ہوئے مگر اس پر کوئی تشویش کا اظہار نہیں کرتا کیونکہ مغرب کے نزدیک اپنے لیے یا اپنوں کی خاطر معیار مختلف ہے اور غیروں کو وہ الگ پیمانے سے ناپتے ہیں۔ وہ خود تو بڑے آرام سے اونٹ نگل جاتے ہیں لیکن دوسروں کی مکھی چھانتے ہیں۔ نائن الیون کے بیس سال بعد امریکی ایوانِ نمائندگان کو دنیا بھر میں پھیلنے والے اسلاموفوبیا کا احساس ریپبلکن قانون ساز لارین بوئیبرٹ کے اس بیان سے ہوا کہ جس میں انہوں نے الہان عمر کو ایک مسلمان دہشت گرد سے تشبیہ دے دی۔ امریکہ میں اسلاموفوبیا کے 500 سے زائد واقعات کا اندراج ہوچکا ہے۔ اس کے سبب لوگ نہ صرف ایک دوسرے کو برا بولتے ہیں بلکہ تشدد کی جانب گامزن ہیں۔ اسلاموفوبیا کی خوفناکی کا اعتراف کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مسلمانوں کے تئیں پھیلنے والی نفرت کو وبا سے تشبیہ دی ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ (لطیف کھوکھر)