طویل مذاکراتی عمل کے بعد امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تشدد میں کمی کا معاہدہ جمعہ سے پورے افغانستان میں نافذ کر دیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ ایک ہفتے کیلئے دونوں فریقوں کو مسلح کارروائیوں سے روکتا ہے۔ اس سے جنگ سے تباہ حال ہمسایہ ملک میں مستقل امن کے قیام کی امید پھر سے بیدار معلوم ہونے لگی ہے۔ ایک ہفتہ تک امریکہ اور طالبان اگر اس ابتدائی معاہدے کے پابند رہے تو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا حتمی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں اس معاہدے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کی پابندی کے دوران افغان فوج کسی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لئے مستعد رہے گی۔ افغان نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس دوران افغان فورسز داعش اور دیگر جنگجو گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری رکھیں گی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ معاہدے کا احترام کئے جانے کی صورت میں 29فروری کو امریکہ اور طالبان کے مابین انخلا کے معاہدے پر دستخط کئے جا سکتے ہیں۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مذکورہ پیشرفت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دونوں فریقوں کی جانب سے امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں اعلیٰ شخصیات کو مدعو کیا جائے گا۔ افغان طالبان ذرائع کہہ رہے ہیں کہ امن معاہدے کے بعد طالبان اور افغانستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان انٹرا افغان مذاکرات ہوں گے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور نیٹو اتحادیوں نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو حملے کا ذمہ دار ٹھہرا کر طالبان حکومت سے اسامہ کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ قبائلی اقدار کوعزیز ازجان رکھنے والے طالبان نے اسامہ بن لادن کو مہمان قرار دے کر حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ نے جواب میں حملے کا اعلان کر دیا۔ ڈیڑھ لاکھ سے زاید اتحادی فوجی افغانستان میں آ گئے۔ طالبان اور القاعدہ قیادت روپوش ہو گئی۔ طالبان سے تعلق رکھنے والی کئی شخصیات کو گرفتار کر لیا گیا۔ سینکڑوں طالبان کو قتل کیا گیا۔ امریکہ کی پروپیگنڈہ مشینری نے پوری دنیا میں طالبان کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا۔ کچھ برس بعد طالبان نے خود کو دوبارہ منظم کیا اور اتحادی افواج کے ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیے۔سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے 2014ء میں انخلا کا اعلان کیا لیکن وہ اس کے لئے موثر انتظام نہ کر پائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے اور ایک بار پھر افغانستان میں فوجی دستوں کی تعداد بڑھا دی تاہم انہیں جلد اندازہ ہو گیا کہ افغان جنگ امریکی معیشت کو تباہی کے دہانے تک لے آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے 2018ء میں طالبان سے امن معاہدے کے امکانات پر کام شروع کیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کو جس طرح جبراً دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا اتحادی بنایا وہ ایک ناخوشگوار تجربہ تھا۔ بھارت نے امریکہ کو انٹیلی جنس معاونت فراہم کی۔ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ صدر ٹرمپ کو انخلاء کی منصوبہ بندی کے لئے مدد کی ضرورت پڑی تو ایک بار پھر پاکستان یاد آ گیا۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کی ڈیل افغان حکومت کروا سکی نہ بھارت امریکہ کی مدد کر سکا۔ اس دوران طالبان نے افغانستان کے پچاس فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا۔ امریکہ کی بے بسی عبرت کا نمونہ ہے۔ امریکہ نے پاکستان سے مدد کی درخواست کی ‘کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور ہزاروں فوجی مروانے کے بعد امریکہ نے آخر طالبان کی شرائط تسلیم کرتے ہوئے افغانستان سے انخلا کا معاہدہ طے پانے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان میں امریکی مفادات کے لئے پاکستان چالیس برس سے قربانی کا بکرا بنا ہوا ہے۔دونوں فریق ایک دوسرے کے قیدی رہا کرنے پر اتفاق کر چکے ہیں‘ افغانستان کی صورت حال نے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا ہے۔پاکستان کے پرامن ماحول میں اسلحہ‘ منشیات‘ لاکھوں پناہ گزین اور سماج میں پرتشدد رویوں کا ظہور افغان تنازع کی دین ہیں۔ امریکی ارادوں کو ناقابل اعتبار قرار دینے والے طالبان اب بھی امریکی وعدوں پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔پاکستان نے طالبان کو امن معاہدے پر راضی کر کے خطے اور عالمی امن کو تحفظ دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے امن دستوں کی کارکردگی اور کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزی کے باوجود پاکستان نے ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان کی ان مساعی کے جواب میں عالمی برادری کو مثبت ردعمل دینا ہو گا‘ خصوصاً ایف اے ٹی ایف پرافغان تنازع کو پرامن انداز میں طے کرنے کے لئے پاکستان کا کردار بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اس ستائش سے محروم ہے جس کا پاکستان حقدار ہے۔ پاکستان کا حق بنتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہونے کے ثمرات سب سے زیادہ اسے ملیں۔ پاکستان کی مسلح افواج‘ منصوبہ بندی کمشن‘ اکنامک ڈویژن اور سٹریٹجک فوائد پر کام کرنے والے اداروں کو وقت ضائع کئے بغیر پرامن افغانستان سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کر لینی چاہیے۔تاریخ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کریں اور ان امکانات کوہاتھ سے نہ جانے دیں جن کے ذریعے پاکستان بہت سی مشکلات ختم کر سکتا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والا امن معاہدہ خطے میں طاقت کا نیا توازن پیدا کر رہا ہے۔ سی پیک منصوبہ اب زیادہ نمایاں رفتار سے آگے بڑھ کر خطے کے داخلی تنازعات کو حل کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔