نیویارک، واشنگٹن، لندن، برلن ( ندیم منظور سلہری سے ، مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں، نیٹ نیوز) امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت کیخلاف پر تشدد مظاہرے پھیل گئے اور پولیس پر حملے بھی جاری ہیں۔ نیویارک کا دل مینہٹن سمیت کئی علاقے میدان جنگ بنے رہے ، کاروباری مراکز میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے 11ریاستوں میں فوج کو طلب کر لیا گیا جبکہ 16 ریاستوں کے 25 شہروں میں کرفیو نافذکردیا گیا ۔تفصیل کے مطابق امریکہ میں پرتشدد واقعات کی طوالت نے ریاستی حکومتوں کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ کورونا کے علاوہ انتہا پسندی اور نفرت کے بڑھتے رحجان نے سسٹم کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے ۔ نیویارک کا دل مینہٹن میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑ پوں میں گھونسوں اور مکوں کا استعمال کیا گیا۔ مظاہرین امریکی پولیس کو دنیا کی بدنام زمانہ فورس کہہ کر نعرے لگاتے رہے اور امریکی پرچم بھی نذر آتش کئے ۔ پولیس نے مظاہرین پر گاڑی چڑھا دی جس سے 4 افراد زخمی ہو گئے ۔ نیویارک کے علاقوں بروکلین، برانکس، کوئینز ، لانگ آئی لینڈ اور سٹیٹن آئی لینڈ میں مظاہرین نے پولیس کی گاڑیاں، کئی تھانوں کی عمارتین نذر آتش کر دیں، رات گے تک احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی ریاستوں میں شروع ہونیوالے احتجاجی مظاہروں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امریکہ بدل چکا ہے اور نفرت کی لہر نے پورے معاشرے میں گھر کر لیا۔ لاس اینجلس میں پولیس کے دستے گشت کر رہے ہیں۔ پولیس کی جانب سے ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا گیا پھر بھی مشتعل افراد قابو میں نہ آئے اور ہنگاموں کا سلسلہ جاری رکھا۔ایک صحافی بھی ربڑ کی گولیاں لگنے سے زخمی ہوگیا، پر تشدد مظاہرین نے کئی گاڑیوں ، عمارتوں کو جلا دیااور پتھراؤ بھی کیا۔جن شہروں میں کرفیو نافذ کیا گیا ان میں لاس اینجلس، میامی، اٹلانٹا، شگاگو، مینیا پولس، سینٹ پال، کلیولینڈ، کولمبس، پورٹ لینڈ، فلاڈیلفیا، پٹس برگ، چارلسٹن، کولمبیا، نیش ولے اور سالٹ لیک سٹی شامل ہیں۔شکاگو میں ایک ہزار اور نیویارک میں 300سے زائد گرفتاریاں ہوچکی ہیں جبکہ دیگر ریاستوں میں بھی درجنوں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے ۔ادھر 4 روز سے مینیا پولس میں جاری آتش زنی، توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کے باعث جنگ عظیم دوم کے بعد پہلی مرتبہ منی سوٹا نیشنل گارڈ کو پوری طرح متحرک کردیا گیا۔ فوجی دستوں کو 4 گھنٹوں کے نوٹس پر الرٹ رہنے کا کہہ دیا گیا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی پولیس کے ہاتھوں ہلاک سیاہ فام جارج فلائیڈکی موت کو برا سانحہ قرار دیتے ہوئے مظاہرین کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انہیں خونخوار کتوں اور جدید ہتھیاروں سے لیس اہلکاروں کا سامنا کرنا ہو گا۔ ایک بیان میں انہوں نے واشنگٹن ڈی سی کی میئر پر وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاج روکنے کیلئے پولیس نہ بھیجنے کا الزام بھی لگایا گیا ۔ دریں اثنا ٹویٹس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ روایتی میڈیا نفرت اور انتشار پھیلانے کیلئے اپنی پوری طاقت استعمال کر رہا ہے ،یہ جھوٹی خبریں دیتا ہے اوریہ برے لوگ ہیں جن کا ایجنڈا بیمار ذہنیت والا ہے ،جب لوگ یہ جان لیں گے تو ہم آسانی کیساتھ عظیم کام کر سکیں گے ۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا حکومت انتیفا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیگی، جن ریاستوں اور شہروں میں ڈیموکریٹس کی حکومت ہے انہیں بھی دائیں بازو کی اس انتہا پسند تنظیم پر پابندی لگانی چاہئے جیسا کہ منی پولس میں لگائی گئی۔ نیشنل گارڈ نے منی پولس اور منی سوٹا میں بہت اچھا کام کیا اور انتیفا کے انتشار پسندوں پر قابو پا لیا۔ اگر یہ کام میئر کرتے تو صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی۔ دیگر ریاستوں میں بھی نیشنل گارڈ سے کام لینا چاہئے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ۔ واشنگٹن ڈی سی کی میئر کا کہنا تھا کہ وہ شہریوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دے رہی ہیں، مگر ٹرمپ انہیں تقسیم کر رہے ہیں۔ ادھرنیویارک کے میئربل ڈی بلازیو نے کہا کہ سیاہ فام امریکی کے قتل کی آزادانہ تحقیقات اور ملوث افراد سے جوابدہی کی جانی چاہئے ۔ تاہم نیویارک میں پر تشدد احتجاجی مظاہروں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔ علاوہ ازیں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے بیان میں کہا کہ تمام امریکی شہریوں کا حق ہے کہ وہ احتجاج کریں، مگر تشدد اور تخریبی کارروائیاں قابل مذمت ہیں۔سیاہ فام امریکی کے سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں قتل کیخلاف احتجاج برطانیہ اور جرمنی تک پہنچ گیا ۔ لندن میں احتجاج کے موقع پر جارج فلائیڈ کی یاد میں خاموشی بھی اختیار کی گئی۔وسطی لندن میں برطانوی پارلیمنٹ سے امریکی سفارتخانہ تک احتجاجی ریلی نکالی گئی،مظاہرین نے ’’ انصاف نہیں تو امن نہیں‘‘ کے نعرے لگائے ۔برلن میں بھی امریکی سفارتخانے کے سامنے مظاہریں ’’ ہمیں مارنا بند کرو، جارج فلائیڈ کو انصاف دہ ‘‘کے نعرے لگا رہے تھے ۔