امریکی حکومت کے بارے میں دنیا بھر کے سیاسی، اقتصادی اور عالمی امور کے ماہرین متفق ہیں کہ اسے نہ تو وائٹ ہائوس میں بیٹھنے والا صدر چلا رہا ہوتا ہے اور نہ ہی سینٹ یا ایوان نمائندگان میں منتخب ہو کر آنے والے اراکین۔ یہ تو دنیا بھر کو دکھانے کے لیے ایک جمہوری چہرہ ہے ورنہ آپ امریکی صدور یا ممبران سینٹ سے انٹرویو کر کے دیکھ لیں، ان میں سے اکثریت کو اس بات کا ادراک تک نہیں ہوگا کہ امریکہ کی خارجہ، داخلہ، یا دفاعی پالیسیوں کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں۔ امریکہ ویت نام میں کیوں گھسا، جنوبی امریکہ کے ممالک میں کیا شرارتیں کر رہا ہے یا پھر افغانستان اور عراق کی جنگ کے پس پردہ عوامل کیا تھے اور ایسے کون سے مقاصد کا حصول تھا جس کے لیے اتنی جانوں اور سرمائے کی قربانی دی گئی۔ چند ایک کا تجربہ یا مطالعہ ان کی گفتگو میں تھوڑی گہرائی ضرور پیدا کرتا ہے مگر اکثریت ’’رٹو طوطے‘‘ کی طرح وہی باتیں دہرائے جاتے ہیں جو میڈیا میں عام ہوتی ہیں یا چند پالیسی ساز دہراتے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کے جمہوری نظام میں منتخب عوامی نمائندوں کی علمی صلاحیت کا یہی عالم ہے۔ اسی لیے تقریباً ہر دفعہ پانچ سو کے لگ منتخب نمائندوں میں سے ایک سو سال گزرنے کے باوجود بھی ایک فیصد بھی ایسے نہیں ہوئے جنہوں نے کاروبار حکومت یا امور سلطنت پر کوئی ایسی تحریر چھوڑی ہو، تجربات کا نچوڑ بیان کیا ہوتاکہ وہ رہتی دنیا تک جمہوری طرز حکومت کے لیے رہنمائی فراہم کر سکے۔ عوامی نمائندگی کے اس فریب اور دھوکے کو قائم رکھنے کے لیے ہی تو پارلیمنٹ، کانگریس اور دیگر ادارے بنائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو دکھایا جا سکے کہ جمہوریت میں عوام فیصلہ کرتے ہیں اور ان منتخب نمائندوں کے ذریعے ان کی حکومت قائم ہے۔ اصل میں تمام بڑے بڑے جمہوری ملکوں میں کاروبار سلطنت اور امور حکومت کا سارا دارومدار ان غیر منتخب عالی دماغ لوگوں پر ہوتا ہے جنہیں مختلف تھنک ٹینکوں (Think tanks) کی صورت میں اکٹھا کیا جاتا ہے۔ جتنی بڑی جمہوریت، اتنے ہی زیادہ تھنک ٹینک۔ امریکہ کا انحصار ہی ان تھنک ٹینکوں پر ہے وہاں 1,872 مختلف تھنک ٹینک موجود ہیں۔ برطانیہ میں 444، جرمنی میں 225، فرانس میں 197 اور کینیڈا میں 100 کے قریب تھنک ٹینک نظام کار کو چلانے کا پکا پکایا حلوہ تیار کر کے ان عوامی نمائندوں کے سامنے رکھتے ہیں جو بظاہر جمہوری نظام کی اجتماعی عقل و دانش کی علامت بتائے جاتے ہیں مگر ان میں واضح اکثریت ایسی ہوتی ہے جو ان کی رپورٹ اول تو پڑھتے نہیں اور پڑھ بھی لیں تو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اقبال کا جمہوری نظام کے بارے میں لکھا گیا فارسی کا شعر اس قدر سچ ہے کہ حیرت ہوتی ہے: گریز از طرز جمہوری، غلام پختہ کار شد کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آئی ترجمہ: ’’جمہوری طرز حکمرانی کو چھوڑ کر کسی صاحب علم تجربہ کار شخص کا غلام ہو جا، کیونکہ دو سو گدھوں کے دماغ سے انسانی فکر پیدا نہیں ہو سکتی۔‘‘ اقبال کے اس شعر میں بتایا گیا ’’پختہ کار‘‘ یعنی صاحب علم تجربہ کار دراصل وہی ماہرین ہیں جو تھنک ٹینک میں بٹھے ہوتے ہیں اور لوگوں کو دکھایا جاتا ہے کہ یہ نظام بظاہر ان ’’دو سو گدھوں‘‘ سے چل رہا ہے۔ حالانکہ اصل میں پس پردہ وہی صاحب علم تجربہ کار موجود ہوتے ہیں۔ امریکہ کے ان 1872 تھنک ٹینکوں میں سرکاری سطح کا ایک بہت بڑا ادارہ ہے جو امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی کمیونٹی کی رہنمائی کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کا نام (National Intelligence Council- NIC)۔ نیشنل انٹیلی جنس کونسل ہے۔ اسے 1979ء میں قائم کیا گیا تھا جو قومی اور عالمی معاملات پر معلومات فراہم کرتا ہے۔ دنیا بھر میں جنم لینے والے رجحانات کا جائزہ لیتا ہے۔ امریکی مفادات اور اہداف کے بارے میں پالیسی بناتا ہے اور پکی پکائی کھیر کی صورت منتخب نمائندوں اور امریکی صدور کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پالیسی کی یہ ’’کھیر‘‘ امریکی جمہوریت کے ’’عالی دماغ‘‘ منتخب نمائندے اپنی رائے شماری کے چاندی کے ورق لگا کر مارکیٹ میں بیچتے ہیں اور یہ جمہوری شعور کہلاتی ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد جب امریکہ افغانستان میں داخل ہو گیا اور پھر 2003ء میں خطرناک ہتھیار ڈھونڈنے عراق پر بھی حملہ آور ہو کر قابض ہو گیا تو اس سرکاری تھنک ٹینک نے دسمبر 2004ء میں دنیا بھر کے ممالک کے مستقبل کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کی جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ دنیا 2020ء میں کیسی ہو جائے اور امریکہ کو اسے کیسا بنانا چاہیے اور امریکی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں 2020ء تک کیا تبدیلیاں آ جائیں گی۔ رپورٹ کا نام "Mapping the Global Future" یعنی ’’عالمی مستقبل کی نقشہ کشی‘‘ ہے۔ رپورٹ چار بنیادی حصوں پر مشتمل ہے اور ہر حصے کے آخر میں ایک تصوراتی خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ اگر ایسے ہی حالات چلتے رہے تو دنیا 2020ء میں اس طرح کے خواب کی تعبیر میں بدل جائے گی۔ اس کا پہلا باب ہے "Contradictions of Globalization" یعنی گلوبلائزیشن کے تضادات۔ اس باب میں ٹیکنالوجی کی ترقی، غریب اور امیر کا فرق اور دنیا کے کاروبار کا عالمی سطح پر یکجا ہونا جیسے موضوعات پر معلومات کاذخیرہ جمع کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا کا ایک خیالی خاکہ بنتا ہے جسے وہ "Fictional Scenerio" کہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی معیشت کا چہرہ مکمل مغربی ہو جائے گا۔ چین اور بھارت کی معیشتیں اس کا حصہ ہوں گی۔ افریقہ توقع سے زیادہ ترقی کرے گا لیکن مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ دوسرا باب سیاسی نقشے کے متعلق ہے جن کا عنوان ہے Changing Geopolitical land Scape یعنی بدلتا ہوا سیاسی منظر نامہ۔ اس میں ایشیا کی ابھرتی قوتوں، بوڑھی ہوتی عالمی طاقتوں، توانائی کی طلب میں اضافہ اور ایسے تمام حالات میں یہ سوال کہ کیا امریکہ واحد عالمی طاقت رہے گی۔ اس حصے کے تخیلاتی تصور برائے 2020ء کا عنوان ہے "Pax Americana"۔ کیا کمال عنوان ہے۔ Pax دراصل اس ’’جپھی‘‘ اور بوسے کو کہتے ہیں کہ عبادت کے بعد چرچ میں پادری کو سب لوگ ڈالتے ہیں۔ یعنی امریکی طاقت 2020ء میں دنیا کا مذہب بن جائے گی جو ان کی سماجیات اور اخلاقیات کو بھی قابو میں کرے گی۔ تیسرا باب مشکلات کا ہے۔ "New Challenges to Governance" مکمل حکمرانی کی راہ میں رکاوٹیں۔ اس باب میں وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک جن میں مشرق وسطیٰ، سینٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا وغیرہ ہیں‘ جمہوری سیاست کے خلاف لوگ اٹھیں گے۔ ان خطوں میں شناخت کی سیاست "Identity Politics" ہوگی اور سب سے بڑی شناخت اسلام بنے گا۔ اس باب کا تخیل تصور یہ ہے کہ کسی مسلمان ملک میں خلافت قائم ہو سکتی ہے لیکن یہ جدید ٹیکنالوجی کے سامنے شکست کھا جائیگی۔ آخری بات ہے "Pervasive Insecurity" یعنی پھیلتا ہوا خوف و خطرہ۔ اور اس کا تخیلاتی تصور ہے ’’مسلسل خوف‘‘۔ اس میں بھی دہشت گردی، تباہی، بربادی اور بد امنی کا شکار صرف مسلمان ممالک ہوں گے اور وہاں پلنے والی دہشت گردی سے دنیا خوفزدہ رہے گی۔ ایک سو گیارہ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں امریکہ کو جو پالیسی بنا کر دی گئی، اس کے مطابق دنیا کا ہر خطہ معاشی و سیاسی ترقی کرے گا سوائے مسلمان خطے کے ۔پوری دنیا ترقی کی منازل طے کرتی رہے گی لیکن مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک لوگ آگ اور خون میں نہاتے رہیں گے۔ آج اس رپورٹ کے ٹارگٹ وقت میں صرف ایک سال باقی ہے اور انہوں نے دنیا کو ویسے ہی بدل کر رکھ دیا ہے لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ مراکش سے انڈونیشیا تک پھیلی مسلمان دنیا کے بیچوں بیچ ایک ایسا ملک بھی آتا ہے جس کا نام افغانستان ہے۔ یہ اللہ پر توکل رکھنے والے مسلمانوں کا وہ ملک ہے جو 2020ء کے اس امریکی خواب کو چکنا چور کر چکا ہے۔ یہ وہ زخم ہے جو افغانستان کے میدان جنگ نہیں، امریکی طاقت اور ٹیکنالوجی کے وجود پر رستے ہوئے ناسور کی طرح پیوست ہو چکا ہے۔