تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیشکش‘ معاشی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ اور پاکستان کو علاقائی معاملات میں اہم تسلیم کرنے سے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے کامیاب رہنے کا تاثر ابھرا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابی مہم کے دوران پاکستان مخالف مہم‘ صدر منتخب ہونے کے بعد پاکستان کی امداد میں کٹوتی‘ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو تاریخ کی نچلی ترین سطح پر لانے‘ پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام تھوپنے اور بھارتی ایماپر پاکستان مخالف فیصلے کرنے کی وجہ سے انہیں پاکستان مخالف سمجھا جاتا ہے۔ چند ماہ قبل وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ کے بعض متنازع ٹوئٹس پر انہیں بھر پور جواب دیتے ہوئے تاریخ سے ناواقف قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کی دلچسپی کے باعث سید صلاح الدین‘ مسعود اظہر اور حافظ سعید کے خلاف فیصلے ہوئے۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اس صورت حال میں دونوں سربراہان کی پہلی ملاقات کے نتائج سے متعلق سبھی حلقے محتاط انداز میں بات کر رہے تھے تاہم اس ملاقات کے بعد صورت حال بدل چکی ہے۔ پاک امریکہ تعلقات پچاس کے عشرے میں استوار ہوئے۔ پاکستان نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ اسے کئی معاملات میں بین الاقوامی حمایت کی ضرورت تھی۔ امریکہ نے غذائی اجناس اور فنڈز کے ذریعے یہ ضرورت پوری کی۔ بعدازاں امریکہ نے خطے میں سوویت اثرورسوخ روکنے کے لئے پاکستان سے تعلقات کو دفاعی حوالے سے مضبوط کیا۔ امریکہ کی گزشتہ پچاس سال کی تاریخ میں پاکستان کس قدر اہم رہا اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی وجہ سے سرد جنگ کا آخری نتیجہ اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہوا۔ سوویت یونین کے انہدام نے امریکہ کو نیو ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کا موقع دیا اور وہ ایک تنہا سپر پاور کے طور پر دنیا کے معاملات چلانے کے قابل ہوا۔ امریکہ کے اس غلبے نے عالمی تنازعات کو اس کی خواہش کے مطابق حل کیا۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فیصلہ کیا۔ اس جنگ میں پاکستان امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بنا۔ امریکی سیاست میں اس دوران ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ وہاں پاکستان مخالف سیاستدان مقبول ہونے لگے۔ ڈیمو کریٹ پارٹی کے باراک اوبامہ نے پاکستان کے خلاف انتہائی سخت لہجہ اختیار کیا اور وہ صدر منتخب ہو گئے۔اپنے اقتدار کے آخری برسوں میں اوبامہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اور وہ پاکستان کی مدد سے افغانستان سے انخلا چاہتے تھے۔ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے خلاف شدید اور متنازع بیانات کے باعث جانے جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی پاکستانی قیادت کو بری طرح نظر انداز کیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف 2017ء میں سعودی عرب میں ہونے والی اس کانفرنس میں شریک تھے جس سے ڈونلڈ ٹرمپ نے خطاب کیا مگر صدر ٹرمپ نے نواز شریف کا ذکر کیا اور نہ ان سے رسمی ملاقات کی۔ یقینا ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عملیت پسند نے بلا وجہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کا فیصلہ نہیں کیا۔ امریکہ کو ایک بار پھر ایسے مسائل کا سامنا ہے جن سے نجات کے لئے پاکستان سے تعلقات میں بہتری ضروری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ اور بعدازاں مختلف فورمز پر خطاب کے دوران ان امور پرکھل کر بات کی جن پر پاکستان امریکہ کا تعاون چاہتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات ہمیشہ دو طرفہ مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ امریکہ افغانستان سے باعزت انخلاء کے لئے پاکستان کے ذریعے طالبان سے بات کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ واپسی کے آپریشن کے لئے پاکستان کی فضائی‘ بحری اور زمینی حدود کو استعمال کرے۔ امریکہ کا بہت سا اسلحہ اور سامان واپس نہیں بھیجا جا سکتا اس کو افغانستان میں چھوڑنا درست نہیں۔ پاکستان سے اس سلسلے میں بھی مدد طلب کی جا رہی ہے۔ افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک میں سے پاکستان اپنے اثرورسوخ کے اعتبار سے سب سے مؤثر ہے۔ انخلا کے بعد امریکی مفادات کا تحفظ اسی صورت میں ممکن ہے اگر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہوں ۔پاکستان کا یہ موقف امریکہ کے فیصلہ ساز حلقوں میں پذیرائی پا چکا ہے کہ افغان تنازع کا لڑائی سے حل ممکن نہیں‘ اسے سیاسی انداز میں طے کیا جائے۔ پاکستان اس سلسلے میں بہت کچھ کر سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس اب بھی اس قدر سٹریٹجک ٹولز ہیں کہ وہ خطے کے اس اہم تنازع کے نتائج پر اثرانداز ہو سکے۔وزیر اعظم عمران خان‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پورے دورے کے دوران یہ مطالبہ نہیں کیا کہ امریکہ پاکستان کو امداد دے۔ پاکستان نے واضح انداز میں امریکی حکام سے کہا ہے کہ ہمیں امداد کی نہیں بلکہ تجارت کی ضرورت ہے۔ خود صدر ٹرمپ نے پاک امریکہ تجارت بڑھانے کی خواہش ظاہر کی۔ خطے کے دیگر ممالک خصوصاً ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوارت تعلقات پاکستان کی پالیسی ہے۔ وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی پہلی ترجیح اپنے عوام کو غربت کی دلدل سے نکالنا ہونی چاہیے۔ اس دورے کے دوران ڈاکٹر شکیل آفریدی اور عافیہ صدیقی کے معاملات پر وزیر اعظم نے بات چیت کا امکان کھلا رکھنے کا کہا ہے۔ پاکستان امریکی حکام کو بظاہر یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ دو طرفہ تعلقات کو برابری کی سطح پر استوارہونا چاہیے۔ امریکہ کے دورے نے پاکستان کی سیاسی، علاقائی اور بین الاقوامی مشکلات کم کر دی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے پاکستانی قیادت اور قوم کو مضبوط اور عظیم تسلیم کیا ہے۔ اس دورے سے نیا پاکستان دنیا میں ایک بار پھر اپنا شاندارکردار ادا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ کامیابی پرسیاسی و عسکری قیادت لائق تحسین ہیں۔