دنیا کی نظریں تین نومبر کو ہونے والے امریکہ کے صدارتی الیکشن کے نتائج پر لگی ہیں کیونکہ یہ ملک اتنی بڑی طاقت ہے جسکی اندرونی سیاست کے اثرات پوری دنیا کے ملکوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ آج امریکی عوام صرف نئے صدر ہی نہیں بلکہ سینٹ کے ارکان کے لیے حتمی ووٹنگ کریں گے۔ کورونا وبا کے باعث بنائے جانے والے نئے نظام میںتقریبا ً پونے دس کروڑ لوگ پہلے ہی ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اس مرتبہ ماضی کی نسبت ووٹ ڈالنے والوں کی شرح بہت زیادہ ہوگی۔ عام سروے رپورٹس توبتا رہی ہیں کہ ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیدن کو ری پبلکن پارٹی کے امیدوار صدر ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔ اگر صدر ٹرمپ الیکشن ہار گئے تو گزشتہ تیس برسوں میںوہ پہلے امریکی صدر ہونگے جو دوسری بار منتخب نہیں ہوسکے۔ تاہم رائے عامہ کے جائزے گزشتہ الیکشن میں غلط ثابت ہوگئے تھے۔ان پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ کئی اعتبار سے امریکی الیکشن پاکستان کے عام انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں۔ وہی مخالف امیدواروں میں تلخ جملوں کے تبادلے‘ الزام تراشیاں۔ دولت کا بے تحاشا استعمال۔ اور جو امیدوار اپنے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لے جائے گا اسکی کامیابی کے امکانات زیادہ ہونگے۔امریکہ میڈیا بھی ہیجان خیزی کی وہ تصویر پیش کررہا ہے جو ہمیں پاکستانی میڈیا میںایسے مواقع پر نظر آتی ہے۔ امریکہ کسی تیسری دنیا کے ملک کی طرح لگ رہا ہے جہاں الیکشن کے دن اور نتائج آنے پر تشدد کا خطرہ ہے۔ کئی شہروں میں دکانوں اسٹوروں‘ دفاتربند کرکے انکے شیشوں پرلکڑی کے پھٹے لگادیے گئے ہیں تاکہ بلوائی انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ شکست کی صورت میں نتائج قبول کرنے سے انکار کردیں اور ریاستی اداروں کو اُنہیں صدارتی محل وائٹ ہاؤس سے بے دخل کرنے کے لیے مداخلت کرنی پڑے۔ ممکن ہے اس بار امریکی میڈیا نتیجہ کا اعلان الیکشن کی رات کی بجائے قدرے تاخیر سے مکمل تصدیق کے بعد احتیاط سے کرے تاکہ کوئی تنازعہ نہ کھڑ اہو۔ امریکہ میں صدر کا انتخاب بلواسطہ ہوتا ہے۔ تمام ریاستوں کے مجموعی طور پر 538 ووٹ ہیں۔ جیتنے کے لیے 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔صدر ٹرمپ کی جیت کا انحصار بہت حد تک دو بڑی ریاستوں ٹیکساس اور جارجیا کے نتائج پر ہے جو روایتی طور پرانکی ری پبلکن پارٹی کامضبوط قلعہ سمجھی جاتی ہیں۔ گزشتہ چھ صدارتی الیکشن میں جارجیا میں ری پبلکن پارٹی مسلسل کامیاب ہوتی آرہی ہے۔ دو ریاستیںاوہائیو اور آیئووا بھی بہت اہم ہیں کیونکہ یہاں پر کبھی ری پبلکن جیت جاتے ہیں اور کبھی ڈیموکریٹس۔ ان ریاستوں میں جیت سے امیدوار کو مجموعی طور پر78 ووٹ ملیں گے۔ ان میں جوامیدوار فتحیاب ہوگیا اسکے صدر بننے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ چاربرس پہلے ٹرمپ نے ان چار ریاستوں میںکامیابی حاصل کی تھی۔ اب انکی پارٹی یہاں مشکل میں ہے۔اسکا ایک ثبوت یہ ہے کہ امریکی میڈیا کے مطابق اس مرتبہ ٹرمپ کے حامیوں نے یہاں ووٹر کوکھینچنے کی خاطر انتخابی مہم پر پہلے سے بہت زیادہ دولت لُٹائی ہے۔گارجین کے تازہ ترین سروے کے مطابق صرف اوہائیو میں ٹرمپ کو برتری حاصل ہے۔ جنوب میں فلوریڈاکی ریاست بہت اہم ہے۔ یہاں جو بائیڈن کو بہت معمولی برتری حاصل ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ جو امیدوار الیکشن کے دن اپنے زیادہ سے زیاد ہ حامیوں کو ووٹ ڈلوانے میں کامیاب ہوجائے گا اُسے فتح ملے گی۔ نتائج کی پیشین گوئیوں سے قطع نظر امریکہ میں جو الیکشن مہم چلائی جارہی ہے اس کے خدوخال خاصے دلچسپ ہیں۔ ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کو ایک نقصان یہ ہے کہ وہ خاصے عمر رسیدہ ہیں ‘ستتر برس کے۔اُن میں وہ توانائی نہیں ہے جو ایک جواں سال اُمیدوار میں ہوسکتی تھی۔ تاہم جس چیز کا جو بائیڈن کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ کورونا وبا کا تیز پھیلاؤ اور اس سے امریکی شہریوں کو پہنچنے والا جانی اور مالی نقصان ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے وبا کو ٹھیک طریقہ سے کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ ٹرمپ اس خطرہ کوبہت کم کرکے بتاتے رہے ۔ انہوں نے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں ۔ جوبائیڈن نے اپنے انتخابی جلسوں میں وبا پر اپنے دکھ کا اظہار اس طریقہ سے کیا جس سے لوگوں میں یہ احساس اجاگر ہو اکہ وہ زیادہ حساس انسان ہیںاور امریکیوں کی تکلیف کو دُور کرنے کے لیے بہتر کام کرسکتے ہیں۔ انہوں نے وعدے کیے ہیں کہ صدر منتخب ہونے پر وہ اس وبا کو ختم کرنے اور لوگوں کو علاج معالجہ کی سہولیات دینے کے لیے زیادہ کام کریں گے۔جوبائیڈن نے خود کو ایک معتدل مزاج رہنما کے طور پر پیش کیا ہے جو تقسیم شدہ امریکی قوم کو متحد کرنے کا کام کریں گے۔ امریکہ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ عمومی طور پر صدر ٹرمپ کے بارے میں بہت منفی رائے رکھتا ہے۔ امریکہ کا ایک مؤقر میگزین نیویارکر ہے۔ اس میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون میں لکھا گیا ہے کہ ٹرمپ کے کردار کو ممتاز کرنے والے خواص یہ ہیں کہ وہ بہت متعصب‘ دھوکہ باز‘ خود پسند‘نرگسیت زدہ انسان ہیں۔ وہ جب تک صدر رہے انکا خصوصی وصف دوسروں سے حقارت سے پیش آنا تھا۔ وہ آئین کو‘ اختلاف رائے کو حقیر سمجھتے ہیں۔ وہ عورتوں کے لیے حقارت رکھتے ہیں۔ سیاہ فام لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔وہ عام لوگوںکی فلاح و بہبود اور سائنس سے اتنی حقارت رکھتے ہیں کہ انہوں نے کورونا وباسے پیدا ہونے والی ضروریات کو پورا نہیں کیا۔ اسکا نتیجہ یہ ہے کہ اب تک دو لاکھ پینتیس ہزار امریکی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ چند روز پہلے امریکہ میں وبائی امراض کے ادارہ کے سربراہ ڈاکٹر فاؤچی نے یہ بیان داغا کہ صدر ٹرمپ نے کورونا وباکی روک تھام سے متعلق ان کے مشوروں کو نظر انداز کیا اور یہ کہ گزشتہ ایک ماہ سے انکی ٹرمپ سے بات چیت بند ہے۔امریکہ میں بہت قدر کی نظر سے دیکھے جانے والے ڈاکٹر فاؤچی کے اس بیان نے ٹرمپ کی پوزیشن کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ معیشت زیادہ اہم ہے۔ وہ اپنی مہم میں چین کے خلاف بیان بازی پر زور دیتے رہے اور اپنے مخالفین کو چین کا ایجنٹ قرار دیتے رہے۔ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو کورونا وبا کونظر انداز کرنا چاہیے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ وہ اگر دوسری بار صدر منتخب ہوگئے تو انکا ایجنڈا کیا ہوگا۔