تاریخی طور پر امریکی مڈٹرم انتخابی نتائج امریکی کانگریس اور وائٹ ہائوس کی حکومتوں کے اقتدار کی مختلف جہتوں کو متاثر کرتے آئے ہیں۔ ہمیشہ ہی ان نتائج نے حکومت کو امریکی خارجہ پالیسی بارے نظرثانی پر مجبور کیا ہے۔ ماضی قریب میں اس قسم کی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ امریکی خارجہ پالیسی کو مڈٹرم انتخابی نتائج کی وجہ سے دھچکا لگا۔2006ء میں ڈیمو کریٹس کی کانگریس میں واضح اکثریت کی وجہ سے اس وقت کے امریکی صدر بش عراق کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے اور عراق سے فوجیوں کی واپسی اور ایران بارے جارحانہ اقدامات کے حوالے سے بھی پس قدمی پر مجبور ہوئے۔ اسی طرح 2010ء کے ضمنی انتخابات میں ریپبلکنز کی ایوان نمائندگان میں برتری کی وجہ سے اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کو لیبیا میں عسکری مداخلت کا فیصلہ واپس لینا پڑا جسے بعد میں امریکی صدر نے اپنے اقتدار کی فاش ترین غلطی قرار دیا تھا۔اوباما2014ء میں ایک بار پھر انتخابی نتائج کے اثرات کے شکار ہوئے اور انہوں نے ایران سے جوہری معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام تیز تر کر دیا تاکہ اپنی پالیسی کے مطابق مذاکرات کو نتیجہ خیز بنا سکیں۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی ممکن ہے کہ 6نومبر کے انتخابات کے نتائج کی وجہ سے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی نہ سہی کچھ ایڈجسٹمنٹ کرنے پرہی سہی مجبور ہو جائے۔ اگرچہ ان انتخابات میں ڈیمو کریٹس نے ایوان نمائندگان میں معمولی برتری حاصل کر لی ہے مگر توقع یہی ہے کہ ریپبلکنز کو سینٹ میں اپنی گرفت مضبوط رکھنے میں کسی مشکل کا سامنا نہ ہو گا۔ معاملہ جو بھی ہو مگر ایک بات طے ہے کہ مڈٹرم انتخابات کے امریکی خارجہ پالیسی بالخصوص مشرق وسطیٰ بارے ٹرمپ کی پالیسی پر ان نتائج کے بالواسطہ اور براہ راست اثرات مرتب ہوں گے۔ ان انتخابات کا براہ راست ایک اثر تو یہ ہو گا کہ امریکی کانگریس میں تبدیلی سے ایگزیکٹو اور مقننہ کے تعلقات متاثر ہوں گے۔ ایک تبدیلی یہ آئے گی کہ سینٹ میں آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین جان میکن اور خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ باب کروکر کی ریٹائرمنٹ سے ٹرمپ کو دو اپنے شدید مخالفین سے نجات مل جائے گی اور ان کی جگہ ٹرمپ کے وفادار جم ان ہوف اور جم ریسچ سینٹ میں موجود ہوں گے۔ البتہ سینٹ میں لنڈسے گراہم، مارکوربیو اوررینڈپال کی مزاحمت کا سامنا ہو گا یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دوبارہ انتخابات کی دوڑ میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ پھر بھی یہ افراد ٹرمپ کے ناقد ہیں اور اس کی خارجہ پالیسی کی مخالفت میں کھڑے ہوں گے۔ اگر ریپبلکنز ایوان بالا کے چیمبر میں اپنا کنٹرول رکھنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تب بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ ٹرمپ کو خارجہ پالیسی بالخصوص مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے حوالے سے کوئی بڑا چیلنج درپیش نہ ہو گا۔ خاص طور پر ایران اور سعودی عرب کے بارے میں امریکی صدر کی پالیسی کا جاری رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ربیو اور گراہم ٹرمپ انتظامیہ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ امریکی صدر ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کریں جبکہ پال نے امریکی صدر کو جوہری معاہدے سے نکل جانے پر متنبہ کیا تھا۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد تینوں سینیٹرز نے ٹرمپ سے سعودی عرب کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔ جس سے ٹرمپ گریزاں تھے۔ توقع یہ کی جا رہی ہے کہ ریپبلکنز کانگریس میں وائٹ ہائوس کی پالیسی کے خلاف مزاحمت کریں گے جس کے بعد یقینا سینٹ میں ڈیمو کریٹس اس چیلنج کو مزید ابھاریں گے۔ ڈیمو کریٹس ٹرمپ کو سعودی عرب کے خلاف سخت اقدامات کے لیے مجبور کریں اور دبائو میں شدید اضافہ کریں گے اور ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے حوالے سے بھی امریکی پالیسیوں کو ریورس کرنے کی کوشش کریں گے۔مزید یہ کہ اگر ڈیمو کریٹس ایوان نمائندگان میں اپنا کنٹرول بڑھاتے ہیں تو اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے آہستگی سے ٹرمپ کی پالیسی کو بدلنا چاہیں گے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ہائوس ٹرمپ انتظامیہ کو سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے پر مجبور کر کے یمن جنگ میں سعودی برتری کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے نومبر کے آخر تک یمن میں جنگ بندی کا مطالبہ بھی مڈٹرم انتخابات کے نتائج میں ان ہائوس تبدیلیوں کو بھانپے ہوئے حفاظتی اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ ڈیمو کریٹس کی ہائوس میں اکثریت ٹرمپ کے دفاعی بجٹ میں کمی کردے گی جس میں اوورسیز آپریشنز کی فنڈنگ میں کٹوتی شامل ہو گی جس سے ٹرمپ کی شام اور عراق میں جنگ کی پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہو گا کہ ایران کے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے اثرورسوخ کو روکنے کی وائٹ ہائوس کی صلاحیت بھی کم ہو جائے گی۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کے نتیجے میں کانگریس میں تبدیلی عمومی طور پر وائٹ ہائوس کے داخلی ایجنڈے کو بھی متاثر کرتی آئی ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ نے ضمنی انتخابات سے پہلے خارجہ پالیسی پر بھر پور توجہ دی اور انتخابات کے بعد وائٹ ہائوس کی توجہ 2019ء کے وسط تک اگلے صدارتی انتخابات کی طرف ہو جائے گی۔ موجودہ صورتحال میں ٹرمپ کو اسرائیل فلسطین تنازع کے حوالے سے اپنا امن پروگرام بھی آشکار کرنا ہو گا۔ صدر ٹرمپ فلسطین اور اسرائیل کی قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کر چکے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس تفاصیل بیان نہیں کیں۔ جب مذاکرات شروع ہوں گے تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو واضح مذاکرات کے سمجھوتے پر آمادہ کرنا بھی ٹرمپ کے لیے امتحان ہو گا۔ وائٹ ہائوس ایران پر دبائو بڑھتا رہے گا جبکہ قدامت پسندوں کی طرف سے ٹرمپ پر یہ دبائو بھی ہو گا کہ وہ اس قدر سخت پابندیاں نہ لگائیں جن سے ایران میں حکومت تبدیل ہونے کا اندیشہ ہو۔ ٹرمپ ایک بار پھر ماسکو کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کریں گے مگر ان کی اس کوشش پر ڈیمو کریٹس سخت مزاحم ہوں گے جو پہلے ہی یہ یقین سے کہتے ہیں کہ ماسکو امریکہ کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوا ہے۔ کانگریس کی مخالفت سے شام میں روس کے ساتھ مل کر امن عمل کو آگے بڑھانے اور اسد حکومت کی مخالفت سے باز رہنے کی پالیسی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اگر کانگریس سعودی عرب کے خلاف اقدامات پر ٹرمپ کو مجبور کرتی ہے تو ایران کے خلاف اسرائیل سعودی عرب اتحاد کو بھی دھچکا لگ سکتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود بھی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ بارے پالیسی میں کوئی بڑا فرق دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ امریکہ نمری اور گرمی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کم و بیش ماضی کی پالیسی کو جاری رکھے گا البتہ اس میں حکمت عملی اور ٹیکٹس میں تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔ (بشکریہ:الجزیرہ‘ترجمہ:ذوالفقار چودھری)