اس ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام ترکی میں ہونے والی ایک اہم کانفرنس رمضان کے اختتام تک ملتوی کردی گئی ہے ، کیونکہ طالبان کی جانب سے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس سال نائن الیون کی 20 ویں برسی سے قبل افغانستان سے امریکی افواج کی دستبرداری کے اعلان کے تناظر میں مجوزہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا گیا ہے۔ ترک وزیر خارجہ میلوت کیوسوگلو نے اعلان کیا ہے کہ مقدس مہینہ کے اختتام پر یہ کانفرنس دوبارہ ترتیب دی جائے گی اور اجلاس بلایا جائے گا۔ اس کانفرنس میں پاکستان ، روس ، چین ، ایران ، بھارت ، قطر ، امریکہ اور ترکی کے وزرائے خارجہ شریک ہونا تھے اور یہ چار نکاتی تجویز کا ایک حصہ ہے جسے بائیڈن انتظامیہ امن معاہدے پر عمل درآمدکے لئے آگے بڑھا رہی ہے۔ افغان حکومت کا وفد اس کانفرنس میں شریک ہوگا لیکن بائیڈن کے فوجیوں کی واپسی میں تاخیر کے اعلان کے بعد طالبان نے اس عمل کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔ تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان نے امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی علاقائی حقائق سے وابستہ ہے۔ پاکستان سٹریٹجک لحاظ سے ایک متحرک پڑوس اور علاقے میں واقع ھے ۔پاکستان اپنے قومی مفادات کے موثر انداز میں حصول کے لئیان کلیدی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کر سکتا ھے اور اس کے لئے اپنی جغرافیائی اھمیت کوبہتر انداز سے استعمال کر سکتا ہے۔ پاکستان کسی ایک کیمپ میں ہونے کے لیبل سے بچنے کے لئے اچھا کام کر رہا ہے اور یہ بات اہم ہے کہ اسے چین ، روس اور امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ اچھی شرائط سے استفادہ کرنے والے ایک علاقائی کھلاڑی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان کے افغانستان میں حقیقی پالیسی مفادات ہیں۔ تاہم اسلام آباد کے لئے اصل چیلنج ان بہتر تعلقات کو ٹھوس منصوبوں کی شکل میں عملی جامہ پہنا نا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا اعلان کرتے ہوئے چین سے ابھرتے چیلنجوں کا انخلاء کی ایک وجہ کے طور پر ذکر کیا۔ یقینی طور پر بائیڈن کا حوالہ انڈو پیسیفک ہند اور مشرقی ایشیاء میں چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی مسابقت کا تھا۔ بظاہر لگتا ہے کہ چین افغانستان سے امریکی انخلاکا ایک بڑا فائدہ مند ہے۔ چین نے افغانستان تک بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو توسیع دینے کا عندیہ بھی دیا ہے جبکہ افغانستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے جوڑتے ہوئے افغانستان کو اس کا حصہ بنانا چا ہتا ہے۔اگر امریکہ ایک دور دراز طاقت ہے تو چین افغانستان کا ہمسایہ ہے جسے علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کی معاصر حرکیات میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پچھلے کچھ برسوں سے چین پاکستان کی مدد سے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے ۔ اس نے خود کو طالبان اور کابل انتظامیہ دونوں کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ دونوں اپنے مختلف مفادات کے حصول میں چین کو قیمتی شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے کیونکہ افغانستان کے قضیے کے بارے میں پاکستان کی گہری تفہیم، چین کو مختلف افغان دھڑوں کی نگرانی میں اس ملک کو سیاسی استحکام کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد دے سکتی ہے جس سے جنگ زدہ ملک کی معاشی ترقی ممکن ہو سکے گی۔ افغانستان میں خاص طور پر امریکیوں کے انخلا کے بعد کے دور میں ایران کے مفادات بڑھ گئے ہیں۔ 1996 کے بعد سے ایران نے طالبان کے خلاف جنگ میںنمایاں شراکت کی ہے اور عام طور پر شمالی اتحاد کے نام سے مشہور طالبان مخالف قوتوں کی حمایت کی ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ایران کے علاقائی اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ تہران افغانستان کے مستقبل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے پر راضی ہے۔ یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے گذشتہ ہفتے دہلی میں رئیسینہ ڈائیلاگ کو بتایا تھا کہ 1990 کی دہائی میں واپسی اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کی بحالی محض قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان سعودی عرب تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کے معاملات پر پاکستان اور ایران کے مابین مفادات کے ٹکراؤ کی اس صورتحال کا بھارت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ خاص طور پر چین اور روس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانستان میں پاکستان اور ایران کے مابین مفادات کے کسی بھی ممکنہ ٹکراؤ کے سدباب کا انتظام کریں کیونکہ دونوں ہی افغانستان کے ہمسایہ ہیں۔ افغانستان کے امن کے عمل میں قطر اور ترکی کے موجودہ کردار کو ملحوظ خاطر رکھتے ھو ئے اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ افغان امن عمل کے اس نازک مرحلے کے دوران جو کردار انہوں نے ادا کیا ہے اسے مزید برقرار رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں لینگے اور مستقبل میں اپنے مخصوص کردار سے دستبردار ہوجائینگے۔ آخری مگر بہت اہم کردار افغانستان میں مقامی افغان دھڑوں کا ہے۔یہ دھڑے محض علاقائی طاقتوں کے مھرے نہیں ، نہ ہی مستقبل میںایسا کردار ادا کریں گے بلکہ وہ افغانستان میں بنیادی اور تسلیم شدہ حقیقت ہیں اور یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح افغانستان میں اپنے مقاصد کے لئے بیرونی طاقتوں کا استعمال کیا جائے۔ افغان معاشرے کے مختلف گروہوں میں پائے جانے والے نسلی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغا نستان میں امن کی بحالی اور باہمی اتفاق رائے کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام کا قیام انتہائی چیلنج ہے۔ افغانستان میں کسی بھی برادری یا گروہ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے سے پہلے پاکستان کو افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ایک انتہائی محتاط اور متوازن طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستان اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے علاقائی استحکام کو فروغ دینے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکے۔ (ڈاکٹر طاہر اشرف نے ملایا یونیورسٹی کوالالمپور، سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میںاستاد ہیں۔ )