امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی سرزمین پر کھڑے ہو کر دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ان کے ایسے جملوں پر وزیر اعظم مودی کی پیشانی پسینے سے تر ہو گئی جبکہ پاکستان میں بعض حلقے اس پر ضرورت سے زیادہ اظہار مسرت کرتے دیکھے گئے۔ صدر ٹرمپ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے جمع کردہ ایک لاکھ سے زاید انتہا پسند ہندوئوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا میں تنائو کم کرنے کی جو کوشش کر رہا ہے اس میں کامیابی کے آثار ہیں۔ اس سے خطے کے استحکام میں اضافہ ہو گا اور مستقبل میں ایک دوسرے کے درمیان ہم آہنگی میں اضافہ ہو گا۔ پاک امریکہ تعلقات کو قبل ازیں افغانستان میں مشترکہ مفادات نے ترتیب دیا۔ افغان جہاد کے زمانے میں دونوں کی دوستی سٹریٹجک اتحادی کے رشتے میں تبدیل ہوئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مرحلہ آیا تو پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کئی ایسے امور تھے جہاں امریکہ کو پاکستان کے مفادات قربان کرنے تھے۔ اس موقع پر بھارت نے خود کو تعاون کے لیے پیش کیا۔ امریکہ کے لیے بھارتی انٹیلی جنس تعاون کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ وہ خطے کی ایک بڑی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات پہنچانے کے لیے فکر مند تھا۔ پاکستان کو ایک طرف دہشت گردی سے مقابلہ کرنا پڑا، دوسری طرف اپنے ہی لوگوں کے پرتشدد رویوں کو درست کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی اور تیسرا امریکہ بھارت بڑھتے تعلقات میں اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنا تھا۔ ایک ایسا ملک جو بھارت اور امریکہ کی نسبت وسائل کی کمی کا شکار ہے، مسلسل معاشی مشکلات نے جسے گھیر رکھا ہے اس کی سیاسی و عسکری قیادت نے ملک کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ پاکستان دنیا کے لیے اہم ریاست بن گیا۔ صدر ٹرمپ نے اس بات سے کبھی انکار نہیں کیا کہ وہ بھارت کو پاکستان کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار پاکستان میں امریکی صدر کے دورے کے متعلق وہ جذبات نہیں دیکھے گئے جو صدر کلنٹن اور بش جونیئر کے بھارت آنے اور پھر کچھ گھنٹوں کے لیے سہی پاکستان کا دورہ کرنے کے وقت تھے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستانی عوام امریکہ سے ضرورت سے زیادہ توقعات نہیں رکھتے۔ اس وقت پاکستان اور امریکہ دہشت گردی کے خاتمہ پر متفق ہیں۔ بھارت دہشت گردی کی ذیل میں کشمیری حریت پسندوں کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔ جو 72برس قبل سے اقوام متحدہ میں بطور حریت پسند زیر بحث ہیں۔ صدر ٹرمپ تین بار پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں۔ کشمیر کے مظلوم گزشتہ چھ ماہ سے بھارتی کرفیو میں محصور ہیں۔ کشمیری عوام توقع کر رہے تھے کہ سپر پاور کے طاقتور صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کے لیے ہمدردی کے چند بول بولیں گے، افسوس ان کی توقع پوری نہ ہو سکی۔ صدر ٹرمپ کی آمد پر بھارت میں مسلمانوں کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ نہتے افراد اور شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے پرامن مرد و خواتین پر پولیس کے ساتھ بی جے پی کے غنڈوں نے جو سلوک کیا وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعویدار ریاست کے لیے باعث شرمندگی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی تقریر میں بھارت کو جمہوری طاقت قرار دے رہے تھے۔ جس وقت وہ بھارت میں تمام عقائد کے لوگوں کے مل جل کر رہنے کی بات کر رہے تھے ٹھیک اسی وقت احمد آباد، نئی دہلی، گوہاٹی اور کولکتہ میں سرکاری غنڈے مذہبی امتیاز پر مبنی شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے گھر جلا رہے تھے۔ ان واقعات میں کئی مسلمان مارے گئے۔ بھارت جمہوریت نہیں بلکہ ہندو فاشسٹ نظریات کے ہاتھوں یرغمال تشدد پسند ریاست بن چکا ہے۔امریکی صدر نے بھارت کو پیشکش کی ہے کہ وہ امریکہ سے جدید جنگی ہیلی کاپٹر، میزائل ڈیفنس سسٹم اور دیگر مہلک ہتھیار خرید سکتا ہے۔ ان کی اس پیشکش پر انتہا پسند مجمعے نے پرجوش انداز میں تالیاں بجائیں، صدر ٹرمپ کو اس حقیقت سے آگاہی کی ضرورت ہے کہ بھارت یہ جدید اور مہلک اسلحہ کہاں استعمال کرے گا؟ کیا مقبوضہ کشمیر میں اس کی غلامی سے آزادی کے خواہش مند کشمیریوں کو کچلا جائے گا یا پھر امتیازی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج بیس کروڑ مسلمانوں پر یہ اسلحہ استعمال کیا جائے گا۔بھارت کے مذموم ارادے خطے میں تشدد کو بڑھانے کا باعث ہوں گے۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف 70ہزار جانوں کی قربانی دی ہے۔ دہشت گردی کے وہ ٹھکانے جن کی سرپرستی بھارت کر رہا ہے ان کی بات بھی ہونی چاہئے۔ ہزاروں میل دور افغانستان میں آ کر بھارتی انٹیلی جنس اہلکار پاکستان میں دہشت گردی کے جو منصوبے ترتیب دیتے ہیں ان کو کن بین الاقوامی ضابطوں کے ذریعے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ مودی ایک عرصہ تک خود امریکی حکومت کی جانب سے ناپسندیدہ رہے ہیں۔ ان کی نفرت اور تعصب پر مبنی پالیسیوں نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی دور اندیشی اور دو قومی نظریہ کو درست ثابت کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے خطاب پر انصاف پسند اور انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے حلقے یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک فاشسٹ ریاست اور اس کے ظلم پرور حکمران کو دوست قرار دیا۔ جہاں تک پاکستان کی تعریف کی بات ہے تو یہ امریکہ کی مجبوری ہے۔ اس لیے اہل پاکستان کو کسی خوش گمانی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔