کیا امریکی اسٹیبلشمنٹ کا یہ ردعمل امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر اتفاق کی وجہ سے تھا۔ پہلے سابقہ سی آئی اے سربراہ اور موجودہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بولے کہ یہ معاہدہ امریکی مفادات کی تباہی ہے، اس کے بعد زبانیں کھلنا شروع ہوئیں۔ وہ افغان حکومت جسے امریکی اس قابل بھی نہیں سمجھتے تھے کہ مذاکرات کی تفصیلات سے ہی آگاہ کردیں، اس کا سربراہ اشرف غنی بول اٹھا اور سب کے آخر میں وہ جسے امریکی لارنس آف عریبیا کا خطاب دیا گیا تھا، ریان سی کروکرنے طالبان امریکہ معاہدے کو ''انتہائی خطرناک'' قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ جیمز کنگھم بھی موجود تھا جو 2013 میں کروکر کے بعد افغانستان میں امریکہ کا سفیر رہا۔ دونوں نے چیخ چیخ کر کہا کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان میں امن نہیں ہو سکتا۔ طالبان عالمی دہشتگردوں سے براہ راست رابطے میں آجائیں گے۔ طالبان کو مجبور کیا جائے کہ وہ پہلے موجودہ افغان حکومت سے امن معاہدہ کریں۔ اس ساری بوکھلاہٹ کے پیچھے کیا تھاکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات ہی منسوخ کردیے۔ کیا کابل میں ایک امریکی کا مرنا اتنا اہم تھا، حالانکہ انہی مذاکرات کے دوران گذشتہ ایک سال میں سترہ امریکی فوجی ہلاک ہوچکے تھے۔ کابل کے گرین ویلیج کے حملے میں ایسا کیا ہوا کہ سب کی دم پر پاؤں آگیا، اور جب ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تو تین جگہ خوشی منائی گئی، ایک بھارت کے نیو دلی، دوسری کابل حکومت اور تیسرے پاکستان کے سیکولر لبرل اور طالبان دشمن صحافی و دانشوروں کے ہاں۔ لیکن ان تینوں کو خود بھی احساس ہے کہ ان کی یہ خوشی بالکل عارضی ہے۔ اور اس عارضی خوشی کا اندازہ امریکی لارنس آف عریبیا اور اس کے امریکی ساتھیوں کو بھی ہو چکا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مذاکرات کی منسوخی کے بعد امریکیوں کا افغانستان سے باعزت نکلنے کا راستہ بند ہو گیا اوراب ذلت سے بھاگنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ امریکی لارنس آف عریبیا کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ یہ افغانستان ہے، سرزمینِ حجاز نہیں، جہاں برطانوی لارنس آف عریبیا ہاشمی سیّد شریف ِمکہ کو یہ جھانسہ دے کر کہ خلافت تو قریش بلکہ آل رسول کا حق ہے، اسے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر اکسا کر امت مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اسکے بعد اقتدار کے لالچ میں ڈوبے ہوئے اسی شریف مکہ کو اس نے نجد سے آل سعود کو لا کر اقتدار سے محروم کر دیا تھا۔ اسے کیا معلوم کہ اس خراسان (افغانستان) میں تو وہ لوگ ایک ایسی تربیت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں جس کے بعد انہوں نے رسول اکرم ﷺ کی احادیث کے مطابق بیت المقدس میں مسلمانوں کے آخری خلیفہ ''امام مہدی'' کے اقتدار کو قائم کرنا ہے۔ جبکہ رسول اکرم ﷺکی پیش گوئی کے مطابق عربوں پر تو مکمل ہلاکت نے مسلط ہونا ہے۔آپ ؐ نے فرمایا، ''ویلِ للعرب'' عرب کے لیے تباہی (بخاری، کتاب الفتن)۔ مزید فرمایا، قبائل میں سب سے جلد ختم ہونے والا قبیلہ قریش ہے۔ قریب ہے کہ کوئی عورت کسی جوتی کے پاس سے گزرے اور کہے کہ یہ قریشی کی جوتی ہے (مسند احمد)۔ خراسان (افغانستان) میں بسنے والے یہ بندگان خدا مختلف تھے، اس لیے یہاں نہ کسی لارنس آف عریبیا کا جادو چل سکا اور نہ ہی امریکہ اور اڑتالیس اتحادی ممالک کی ٹیکنالوجی کا زور کچھ کر سکا۔ کابل میں ایسا کیا ہوا جس نے اس ساری منصوبہ بندی کو خاک میں ملا دیا۔ خوشی خوشی معاہدہ طے پا رہا تھا اور افغان حکومت بھی خاموش تھی۔ایسا کیا تھا اس خاموشی کے پیچھے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ''مومن کی فراست سے ڈرو اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے'' (سنن ترمذی)۔یہ فراست ہی تھی کہ آج سے چھ ماہ قبل طالبان کی امارتِ اسلامی کے جریدے ''شریعت'' میں حسن زوی نے اپنے مضمون میں اس منصوبہ بندی سے پردہ اٹھایا تھا کہ طالبان سے معاہدہ کرنے کے بعد امریکہ افغانستان میں بلیک واٹر کے بین الاقوامی جنگ کے دو ہزار ماہرین اور چھ ہزار کمانڈوز کو یہاں چھوڑ جانے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے جو افغان حکومت کے ساتھ مل کر افغانستان میں ایسا خون خرابہ کریں گے کہ لوگ امریکہ کو یاد کریں گے۔ طالبان کے اس جریدے میں امریکی عسکری اخبار ریکوائل (Recoil) میں چھپنے والی اس ڈیل کا بھی تفصیلی ذکر موجود ہے کہ کیسے ڈونلڈ ٹرمپ اور بلیک واٹر کے سربراہ ایرک پرنس کی کئی ملاقاتیں ہوئیں اورکس طرح امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد ایک بہت بڑے قتل عام کا پروگرام بنایا گیا۔ مضمون میں کابل ایئرپورٹ کے پاس ایک مرکز کا ذکر بھی کیا گیا ہے جسے کیمپ انٹیگریٹی (camp integrity) کہتے ہیں، جہاں اس وقت بلیک واٹر کے آٹھ سو کمانڈو موجود تھے۔ مومن کی بصیرت سے آراستہ طالبان اس منصوبے سے بخوبی آگاہ تھے۔ بلیک واٹر کا یہ کیمپ چار لاکھ 35 ہزار 600 مربع فٹ رقبے پر قائم تھا جسے 2009 ء میں قائم کیا گیا۔ اس کیمپ کے لئے امریکی حکومت نے کانگریس سے جو فنڈ منظور کروائے وہ منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کے خلاف (counter-Narcoterrorism) کے نام پر کروائے تاکہ ساری کارروائی خفیہ رہے۔ لیکن جیسے ہی معاہدہ مکمل ہوا، اور اس کے لئے 9 ستمبر 2019 ء کو کیمپ ڈیوڈ میں امریکیوں کی طالبان سے ملاقات طے ہوئی تھی تو ٹرمپ نے پینٹاگان اور سی آئی اے کے کہنے پر یہ اعلان کر دیا کہ امریکہ چند ہزار سپاہی افغانستان میں رکھے گا۔طالبان کو اندازہ تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مائیک پومپیو کا بیان آیا، پریس میں یہ بحث چھیڑ دی گئی کہ افغان طالبان دراصل ایک اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بس نام پر لڑائی ہے۔ معاملے کو الجھانا مقصود تھا۔ امریکہ گذشتہ ایک سال سے طالبان سے صرف پندرہ دن کی جنگ بندی مانگ رہا تھا تاکہ وہ اس دوران اپنی افواج کو وہاں سے نکال لے۔ لیکن طالبان کا موقف یہ تھا کہ جب تک معاہدہ نہیں ہوتا، ہم جہاد ترک نہیں کر سکتے۔ مذاکرات میں تعطل آیا تو طالبان کو خبر ملی کہ امریکہ کابل سے اپنے سپاہی خاموشی سے نکال رہا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ اس کے بعد بلیک واٹر کے ذریعے ایک خونریزی شروع کی جائے اور طالبان کو دہشت گردی کے نام پر بدنام کیا جائے۔ طالبان نے پیش قدمی شروع کی، قندوز فتح کیا اور کابل کی جانب روانہ ہو گئے۔ کیا مردانِ خدا تھے، پھٹے جوتوں اور ننگے پاؤں چلنے والے، لیکن ہیبت ایسی کہ فورا ً زلمے خلیل زاد رات کو ایک بجے بول اٹھا کہ ہم معاہدے پر قائم ہیں اور معاہدہ ٹرمپ کو دستخط کے لیے بھیجا جا چکا ہے اور ہم تمام فوجی واپس بلا لیں گے اگر طالبان ان کی سیکورٹی کی ذمہ داری لے لیں۔ طالبان اب ان چالوں میں آنے والے نہیں تھے، ان کا نشانہ گرین ولیج میں قائم کیمپ انٹیگریٹی تھا جہاں بلیک واٹر کیل کانٹے سے لیس افغان امن برباد کرنے کے لیے تیار تھی۔ یہ حملہ اس قدر شدید تھا کے پورا علاقہ زلزلہ زدہ کھنڈر میں تبدیل ہو گیا۔ دھماکے کے فورا ً بعد طالبان اندر داخل ہوئے اور تیس کے قریب بلیک واٹر کے لوگوں کو قتل کیا اور ڈیڑھ سو کو زخمی۔ کسی کو اندازہ تک نہیں تھا کہ کابل کے مرکزی سیکورٹی علاقے میں بھی طالبان موجود ہونگے جبکہ وہ تو قندوز فتح کرکے پل چرخی کی مہم پر جنگ میں مصروف تھے۔ اس حملے میں طالبان نے اس بلیک واٹر کے انچارج کی تصویر بھی جاری کی ہے جو ہلاک ہوا۔ جس کی یونیفارم پر بلیک واٹر کا نشان اور پشتو کا محاورہ ''دہ گزدہ میدان'' لکھا ہوا تھا۔ یہ شخص شفیق اللہ افغانستان میں وحشی کے طور پر مشہور تھا جسے بنی حصار میں قتل کیا گیا۔ لاس اینجلس ٹائمز نے خبر دی کہ امریکہ کا تھری سٹار جنرل بھی اسی حملے میں مارا گیا۔ اس ایک حملے نے یہ واضح کردیا کہ اگر معاہدہ نہ کیا گیا تو پھر افغانستان سے امریکہ کی باعزت واپسی تو دور کی بات ہے، ذلت کی پسپائی بھی خواب بن جائے گی، سوائے اس کے کہ وہ اپنی لاشوں کے حصول کی بھیک مانگتا نظر آئے۔ اماراتِ اسلامی افغانستان نے اعلان کیا ہے کہ ہمارا اٹھارہ سال پرانا ایک ہی موقف ہے کہ قابض افواج یہاں سے نکل جائیں اور افغانوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے دیں۔ لیکن امریکہ کے نکلنے سے وہ خوفزدہ ہیں جو امریکی جہازوں میں بیٹھ کر آئے تھے اور اب افغان نمائندے بنے ہوئے ہیں۔ بھارت خوفزدہ ہے جسے اندازہ ہے، کہ افغانستان میں امریکہ کو شکست دے کر جو طالبان حکومت بنے گی، ان کا اعتماد خطے میں انہیں طاقتور ترین بنادے گا، اور پاکستان کا وہ تجزیہ نگار، صحافی، دانشور اور سیکولر لبرل خوفزدہ ہے اس لئے کہ طالبان کی فتح ان کے ٹیکنالوجی کے بت کے چکنا چور ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دے گی۔ وہ تلخ مشروب کے گھونٹ پیتے ہوئے اب کیسے یہ دعویٰ کریں گے ایمان کو ٹیکنالوجی شکست دے سکتی ہے۔ امریکی لارنس آف عریبیا کو جا کر کوئی سید الانبیاء ﷺ کی احادیث پڑھادے کہ برطانوی لارنس آف عریبیا قریش سے معاملہ کر رہا تھا، وہ قریش جس کی تباہی کا اعلان تھا اور امریکی لارنس اس خراسان میں تھا جس کی فتح کی بشارتیں دی گئی ہیں۔