نومبر 2016ء کے امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت پر حیران و پریشان امریکی اتحادیوں اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کو نومبر 2020ء میں بائیڈن کی فتح کے بعد اطمینان کا سانس نصیب ہوا ۔دنیا واحد سپر پاور کے صدارتی انتخابات کو اپنے اپنے مفادات کے آئینے میں دیکھتی ہے مگر امریکی صدر کے فیصلے عالمی خواہشات نہیں امریکہ کے مفادات اور اہداف کے حصول کے لئے کرنا ہوتے ہیں۔ اگر امریکی صدور کے فیصلوں میں عالمی مفادات ترجیح ہوتے تو اپنے نام کے ساتھ حسین لکھنے پر بضد باراک اوبامہ مسلمانوں پر تباہی اور جنگ مسلط کرنے کے امریکی فیصلوں پر نظرثانی ضرور کرتے۔ راقم نے 14نومبر 2016ء کو روزنامہ خبریں میں شائع ہونے والے کالم میں پاکستانیوں کے احساسات اور خواہشات کا تذکرہ ٹرمپ کی جیت کے تناظر میں کیا تھا۔ ٹرمپ کے چار سالہ اقتدار کا حتمی فیصلہ مورخ کو کرنا ہے کیونکہ عہد کے دانشور معروضی حالات کے آئینے میں تجزیہ کرتا ہے جبکہ مورخ چھوٹ اور پراپیگنڈے کے کیچر کو تاریخ کے غیر جانبدار شفاف پانی کی چھاننی میں چھان کر حقائق سامنے لانے کا کام کرتا ہے ۔چار سال تک ٹرمپ نے بھی خبتی بڑبولے اور نسل پرست کے طعنے سنتے ہوئے کچھ فیصلے کئے اور ان فیصلوں پر ٹرمپ کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خود امریکہ کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جن فیصلوں پر ٹرمپ کو پاگل قرار دیا گیا ان میں سے ایک امریکہ کا عالمی جنگوں سے نکلنے کا فیصلہ تھا دنیا شاعروں کو دیوانہ کہتی ہے ساحر لدھیانوی نے جنگ کے حوالے سے لکھا: جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی ٹرمپ بھی ساحر ایسا ہی پاگل تھا فروری 2019کو اپنے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں ٹرمپ نے بھی عالمی استعمار اور امریکیوں کو ساحر کا فلسفہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ عظیم ملک نہ ختم ہونے والی جنگیں نہیں لڑتے‘‘ اسی روز ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا تھا مگر دنیا کی واحد سپر پاور کے سب سے طاقت ور صدر بھی اپنی ماتحت اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کے سامنے کمزور پڑنے پر مجبور ہو ا، اور اس کے کچھ ہی مہینوں بعد ٹرمپ کو شام میں تیل کے کنوئوں کی حفاظت کے لئے 500 امریکی فوجیوں کو شام میں رکھنے کی منظوری دینا پڑی۔ اسی برس 8اکتوبر کی صبح کو ایک مختصرٹویٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ’’ ہمیں افغانستان میں خدمات سرانجام دینے والے اپنے بہادر مرد و خواتین کو کرسمس تک امریکہ واپس بلا لینا چاہیے ،اپنی ہٹ دھرمی میں مشہور ٹرمپ بھی فیصلہ بحیثیت صدر سنانے بجائے ’’واپس بلا لینا چاہیے ‘‘کے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور ہوئے امریکی صدر کی مجبوری کو سمجھنا اس لئے بھی مشکل نہیں کیونکہ امریکی صدر کی خواہش سے صرف چند گھنٹے پہلے ان کے مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ اور برائن نے لاس ویگاس کی نواڈا یونیورسٹی کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ برس کے اوائل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2500کر دی جائے گی، یہ ٹرمپ کا جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے کے فلسفے پر یقین ہی تھا کہ ٹرمپ نے افغانستان عراق اور شام سے امریکی فوج واپس بلانے کا وعدہ اپنی الیکشن مہم میں کیا تھا اس میں شبہ نہیں کہ ٹرمپ کے عالمی جنگوں سے نکلنے کی خواہش کے پیچھے بھی مسلمانوں سے ہمدردی نہیں بلکہ امریکی مفادات ہی تھے ۔امریکہ ٹرمپ کے بقول ان لاحاصل جنگوں میں 6.4ٹریلین ڈالر جھونک کر بھی اہداف حاصل نہ کر سکا تھا۔ ٹرمپ افغانستان سے فوج واپس بلانے کی وجہ بھی افغان جنگ میںتین ٹریلین کے قریب ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی جنگ نہ جیت پانا تھی وہ امریکیوں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ واشنگٹن ہر سال افغان جنگ پر 70ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔مگر اس رقم کا بڑا حصہ جنرل عبدالرشید دوستم اور اسماعیل خان جیسے قبائلی سرداروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ امریکہ کی پوری کوشش کے باوجود افغان فوج میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے چرس اور بھنگ کا شوق پورا کرنے کے لئے فوجی اپنے شہریوں کو لوٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ٹرمپ اپنے چار برس کے دوراقتدار میں امریکہ کو عالمی جنگوں سے نکال کر عالمی تجارت کے ذریعے باہمی عالمی ترقی کی سعی کرتے رہے یہاں تک کہ عراق افغانستان اور شام سے فوجیں نکالنے کی ان کی ہٹ دھرمی سے معاملہ ان کے مواخذے تک جا پہنچا۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ دنیا کا طاقت ور ترین شخص آخر کس قوت کے سامنے بے بس ہو کر رہ گیا؟ آخر وہ کون سی طاقت تھی جو ٹرمپ کے اقوام کی تباہی کے بجائے تجارت کے ایجنڈے میں حائل ہوئی۔ معروف دانشوررانا محبوب اختر نے اس مجبوری کو ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا نام دیا ہے جس کا کام ہی امریکہ کو دنیا میں وار تھیٹر کھولنے پر اکسا کر دولت کمانا ہے۔ ٹرمپ چار سال تک جنگ اور تباہی کے بجائے تجارت اور ترقی کے ایجنڈے کے لئے لڑتے رہے۔ انہوں نے عالمی جنگوں سے نکلنے کے ساتھ عالمی تنازعوں کے حل کے لئے بھی اپنے تئیں کوشش بھی کی۔ ان کے فلسطین مسئلے کے حل پر مسلمانوں کے اعتراضات اور فلسطینوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اپنی جگہ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی تنازعات کے حل سے ہی باہمی تجارت اور امن کی راہ نکل سکتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ٹرمپ کی تاجرانہ ذھن کو اسرائیل بھارت نے اپنے مفادات کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ ٹرمپ نے ایران اور چین کے خلاف دائرہ کھینچ کر عالمی امن کو ایک نئے بحران کی طرف دھکیل دیا مگر ٹرمپ امریکی تاریخ کے پہلے صدر تھے جنہوں نے شمالی کوریا کے ساتھ جنگ کے بجائے مذاکرات کو امریکہ کی ترجیح بنایا یہ درست سہی کہ ٹرمپ نے امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جنگ کے بجائے امن کی منزل پر قدم بڑھانے کو عالمی مفاد گردانا۔امریکہ کو عالمی تجارت کا مرکز محور بنانے کے مقصد اور اقتدار کے حصول کے لئے امریکہ فرسٹ کی پالیسی اپنائی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے امریکہ فرسٹ کے نظریے پر سفید فام احساس تفاخرغالب رہا اگر حالیہ امریکی انتخابات کو پرکھنے کے لئے ٹرمپ کے کاروبارانہ ذھن اور امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے اسلحہ کی تجارت کے معیار پر پرکھا جائے تو کرامت بخاری کا یہ شعر صادق آتا ہے: پرواز میں تھا امن کا معصوم پرندہ سنتے ہیں کہ بیچارہ شجر تک نہ پہنچا