باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال عید قرباں کے موقع پر مسلمان سنت ابراہیمی کی پیروی میں لاکھوں جانور ذبح کرتے ہیں۔ پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن کے مطابق21سے 23 جولائی سال 2021کوعیدالاضحیٰ کے موقع پر ملک میں 20 سے 22 لاکھ گائے،بیل اور 55 سے 60 لاکھ بکرے و دنبے ذبح کیے گئے ۔ اس کے علاوہ ملک میں 1 لاکھ اونٹ بھی قربان کیے گئے۔جبکہ سال 2020 میں 20 لاکھ گائیں، 31 لاکھ 40 ہزار بکرے، آٹھ لاکھ بھیڑیں، 60 ہزار اونٹ قربان ہوئے۔ سال 2019 ء میں 30 لاکھ گائے، 40 لاکھ بکروں،10 لاکھ بھیڑوں اور ایک لاکھ اونٹوں کی قربانی دی گئی، سال 2018 میں 26 لاکھ گائے 30 لاکھ بکرے، پانچ ہزار اونٹ اور تین لاکھ دنبے قربان کیے گئے۔پاکستان میں مجموعی طورپر گزشتہ تین سال میں سوا دو کروڑ سے زائد جانوروں کی قربانی دی گئی ، جن میں کم وبیش 80 لاکھ گائے، ایک کروڑ کے قریب بکرے جبکہ 26 لاکھ بھیڑیں اور ایک لاکھ اونٹ شامل ہیں۔ان اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں قربانی کی تعداد بڑھنے کارحجان پایاجاتاہے ۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قربانی سے جڑی معیشت کا اس سال حجم 400 ارب روپے کے قریب ہے۔کئی برسوں کی شائع شدہ رپورٹس کے مطابق سال 2008 میں یہ حجم تقریبا90 ارب روپے تھا جو سال2016 میں تقریبا 150 ارب روپے سے زیادہ ہوگیا تھا۔ بعد کے برسوں میں یہ ایک اندازے کے مطابق260ارب روپے کے قریب تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ قربانی کے جانوروں کی تعداد میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ قربانی جہاںسنت ابراہیمی کی پیروی ہے وہیں اسکے یہ مسلمان ممالک کی معیشت کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔بالخصوص پاکستان کی معیشت کے لئے یہ بڑا سہارا ہے کیونکہ چمڑے کی صنعت پاکستان کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے ۔تاہم گذشتہ تین برسوں کے دوران پاکستان کی چمڑے کی صنعت روبہ زوال ہے اسکے کئی اسباب وعلل میں سے ایک کوویڈ 19کابھی بڑاعمل دخل ہے ۔عالمی وباکے باعث چمڑے سے بنی ہوئے بے شماراشیاء کی برآمد کاعمل رکاہواہے ۔ رب العالمین کے حکم پرقربانی اپنے ساتھ غرباء ومساکین کی خوشی کاسامان لیکرآتی ہے،غریب خاندان گوشت حاصل کر پاتے ہیں جو عام دنوں میں ان کیلئے ناممکن ہوتا ہے۔سنت ابراہیمی کی پیروی میں کئے جانے والے اس عمل سے سرمایہ امیر کی تجوری میں بند ہونے کی بجائے غریب اور متوسط طبقہ کی جیب میں پہنچتا ہے جبکہ ملک کی مجموعی معیشت میں بھی بہتری آتی ہے۔اس عظیم فریضے کی ادائیگی سے لاکھوں مویشیوں کی خرید و فروخت سے اربوں روپے امیر طبقہ کی جیبوں سے نکل کر کسانوں اور فروخت کرنے والے افراد کے پاس پہنچتے ہیں۔عید کے ایام میں ان مویشیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے اور خریداروں کے گھروں تک پہنچانے کیلئے ٹرانسپورٹ والوں کے روزگار کا اہتمام ہوتا ہے جبکہ قربانی کے جانور ذبح کرنے کیلئے عید کے ایام میں لاکھوں لوگ بطور قصائی اپنا روزگار کماتے ہیں۔پاکستان بھر میں موجود کروڑوں جانوروں کے لیے ہر شہر کی تقریباً ہر گلی میں چارے اور جانوروں کے لیے دیگر ضروریات کے سامان کی فراہمی موجود ہوتی ہے، ان میں بیشتر لوگ مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور حسبِ معمول یہ لوگ بھی سیزن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے روزگار میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ، قربانی کی کھالوں کو محفوظ کرکے اس سے چمڑے کی صنعت مستفید ہوتی ہے،جس سے کئی دیگرصنعتیں چلتی ہیں اور ان صنعتوں میں کئی ہزار افراد روزگار حاصل کرتے ہیں۔اس طرح اس دینی فریضے کی ادائیگی سے سماج میں آمدنی کے بہت سے اسباب کھلتے نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں کی طرح پاکستان میں بھی امیر طبقے سے لے کر غریب طبقہ تک قربانی کے اس موقع سے معاشی طور پر مستفید ہوتا نظر آتا ہے۔ باقاعدہ طور پر کیٹل فارم کھول کر خریداروں کی فرمائش کے مطابق جانوروں کو پورے سال پالا جاتا ہے اور عیدِ قرباں کے دنوں انہیں معقول داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ بیل ،گائے،اونٹ ہوں یا بکرے اوردنبے تمام مویشیوں کی چند جگہ پر وزن جبکہ اکثرمنڈیوں میں خوبصورتی کے حساب سے قیمتیں لگائی جاتی ہیں۔ مجموعی طور پر اس کاروبار سے وابستہ تمام حضرات معاشی ترقی پاتے ہیںجو کہ ملکی معیشت کے لیے ایک فائدہ مند عمل ہے۔ الغرض ! دنیا بھر کے مُسلم ممالک بشمول پاکستان میں عیدِ قُرباں کے محض چند دنوں میں سنّتِ ابراہیمی فقط ایک عبادت ہی نہیں بلکہ اپر کلاس و مڈل کلاس سے لے کر لوور کلاس تک کے تمام طبقات کی معیشت کو مضبوط کرنے اور روزگار میں اضافے کا نظام ہے کہ جس کے ذریعے ربّ کائنات اس دنیا میں موجود کروڑوں لوگوں کے رزق کا اہتمام بظاہر نظر آنے والی اِس چھوٹی سی عبادت میں محفوظ کر دیتے ہیں۔