خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے پیلے پھولوں سے لدے رہتے ہیں جو راہوں میں ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے صاحبو!بات کچھ یوں ہے کہ مئی کے مہینے میں جوبن دکھانے والے املتاس کے پھول جو اپنے درختوں سے گہنوں کی طرح لٹکتے ہیں ہماری بھی کمزوری ہیں۔ ویسے تو ہر پھول ہی ہمیں بھاتا ہے خواہ وہ گوبھی ہی کا کیوں نہ ہو۔ مگر میں پودوں پر کھلنے والے پھولوں کی بات کر رہا ہوں ۔سخن گسترانہ بات اس میں یہ آپڑی کہ ہمارے خیال میں ہم اس منظر کو اچھی طرح رنگ نہ دے سکے سعدیہ قریشی نے اپنے کالم میں املتاس کے پھولوں کو زرد رنگ کے کہا تھا تو ہم چونکے ہم تو انہیں اپنے شعر میں پیلے رنگ کے باندھ چکے ہیں۔ سوچا کہ یہ تو غلطی ہو گئی یہ احساس اس لئے پیدا ہوا کہ بے شمار مردوں کی طرح ہم بھی کلر بلائنڈ color blindہیں۔ سوچا کہ پہلے بھی ہمارے ساتھ ایسے ہوا کہ جن پھولوں کو ہم نیلے blueسمجھے تھے وہ کاسنی نکلے۔ ہم نے اپنی بیگم سے پوچھا کہ یہ زرد اور پیلے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ کہنے لگی کہ زرد گہرائی میں آتا ہے کہ پیلے میں کئی شیڈز ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں ہماری جان میں جان آئی کہ ہم اتنے بھی کلر بلائنڈ نہیں ہیں۔ یہ الگ بات کہ سکول کے دنوں میں سبز شرٹ کی جگہ جانے کون سا رنگ پہن گئے اور استاد سے پھینٹی کھائی حالانکہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں بلکہ آنکھوں کا تھا جن میں سے صحیح رنگ نہیں اترتے تھے۔ یہ کلر بلائنڈ ہونے کے باعث ہی ہے کہ اگر مرد محبت میں دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔ زرد رنگ تو ہم نے غالب سے پڑھ رکھا تھا۔ اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا، پورا شعر یوں ہے: تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا لی جیے کشور ناہید کا شعر بھی یاد آ گیا: کچھ یوں بھی زرد زرد سی ناہید آج تھی کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا پیلا رنگ ہم نے ہاتھوں کے حوالے سے بھی سن رکھا ہے کہ فلاں کے ہاتھ پیلے کر دیے گئے اور اقبال کے ہاں بھی اودھے اودھے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہین‘استغفراللہ ‘ درمیان میں پیلی ٹیکسی کہاں سے حافظے میں آ گئی ساتھ ہی پیلی صحافت یعنی yello jourlism۔وہی لمحوں والی بات کہ لمحہ کئی اور لمحوں سے جڑا ہوتا ہے۔ تو جناب سرسوں کیوں یاد نہ آئے کہ جب یہ فصل شباب پر ہوتی ہے تو لگتا ہے جیسے کسی نے کھیت کو سونے سے بھر دیا ہے۔ سونا بذات خود بھی تو اس پیلے رنگ کی طرح ہے۔ جو مہندی دلہن کے ہاتھ پر چھوڑتی ہے۔ یہ سب کچھ کس طرح آپس میں ملتا جلتا ہے۔ گویا یہ زرد اور پیلا ایک فیملی کے رنگ ہے۔ میں کوئی رنگ ساز تو ہے نہیں کہ ان پر سیر حاصل روشنی ڈال سکوں۔ بس یونہی بات سے بات نکل آ ئی لیجیے ذہن میں زعفران بھی آ گیا میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ میرے دادا حضور حبیب اللہ شاہ جب سفید پلیٹ پر زعفران کے پانی سے تعویز لکھتے تھے تو حروف پیلے رنگ کے ہوتے تھے۔ یہ کشت زعفران والا محاورہ بھی تواسی سے نکلا ہو گا کہ زعفران کی فصل ہنستی اور مسکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہو گی۔ ہم نے سرسوں کی فصل بارہا دیکھی ہے اور اس سے جو لطف اٹھایا ہے وہ سردیوں کی دھوپ جیسا ہے‘ یہاں آ کر تو بات شاید شاعرانہ سی ہو گئی ہے چلیے ایک شعر لکھتے جاتے ہیں: لب پر ہے انکار کسی کے اور ہے دل میں چاہت بھی اس کی آنکھوں میں دیکھو تو دھوپ بھی ہے اور بارش بھی رنگوں کا ذکر پھیلا تو ادا جعفری بھی یاد آئیں کہ رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے۔ پیتل کا رنگ بھی تو پھیلا ہی ہوتا ہے استاد دامن نے کہا تھا نہ سونے دی نہ چاندی دی میں پتل بھری پرات۔ بات چلی تھی املتاس کے لٹکتے ہوئے پیلے پھولوں کے لچھوں کی۔گلشن اقبال میں اس کے کافی درخت ہیں اور ایک جگہ تو قطار میں ہیں ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ کسی کو خوش آمدید کہنے کے لئے پھولوں کے گہنے لئے کھڑے ہیں۔ سعدیہ قریشی نے مجید امجد کے حوالے سے املتاس کا تذکرہ کیا۔ واقعتاً یہ خوبصورت پھول شاعر کو تو کھینچتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے رات کی رانی کی خوشبو اس کے قدم روک دیتی ہے۔ گلاب کا پھول بھی مجید امجد کے ہاں پوری آب و تاب کے ساتھ ملتا ہے۔ مصیبت یہ کہ مجھے بھی مجید امجد پسند ہے اور میں نے اس کے کلام کا انتخاب بھی کیا تھا اور میرا یہ فخر ہے کہ مجید امجد پر اتھارٹی استاد والا ساتذہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے مجید امجد کے حوالے سے منعقدہ ایک محفل میں کہا کہ مجید امجد کے کلام کا سب سے اچھا انتخاب سعداللہ شاہ نے کیا۔مجید امجد کے ہاں زندگی مختلف انوع رنگوںمیں نظر آتی ہے۔ اس کی ایک نظم کوہستانی راستے پر کی دو لائنیں ہمیشہ مجھے ہانٹ کرتی ہیں: ہائے ان گردن فرازانِ جہاں کی زندگی اک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنہیں حاصل نہیں میرا مقصد کوئی مجید امجد مضمون لکھنا نہیں۔ بس یونہی املتاس کے تذکرے نے ۔۔۔۔۔۔تخیل کو ڈیڑھ لگائی تو وہ رواں ہو گیا۔ مقصد یہ کہ ہمیں فطرت کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ جو قدرت نے ہمارے لئے فطرت کو رنگوں سے سجایا ہے تو اس کا ادراک ہمیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے اردگرد پھیلا ہوا سبزہ کس طرح ہماری آنکھوں کو طراوت اور دل کو راحت دیتاہے۔ اس کے بعد پھول تو فطرت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اگر ہم ان رنگوں سے خط نہیں اٹھائیں گے تو پھر ہماری صحت اچھی نہیں رہ سکتی۔ ہمارا رنگ پیلا پڑ سکتا ہے ہمارا رنگ گلابی رہنا چاہیے پھول مجھے اس حد تک کھینچتے ہیں کہ جب میں اقبال ٹائون میں رہتا تھا تو میرے گھر کے سامنے ایک درخت تھا جس پر سے نیلے پھول گرتے تھے اور نیچے قالین سا بچھا دیتے تھے مجھے وہ منظر اس قدر بھایا کہ میں نے نظم لکھنے کا قصد کیا۔ چونکہ میں اس پیڑ کا نام نہیں جانتا تھا۔ میں نے لکھا: نام میں رکھا بھی کیا ہے کام دیکھا چاہیے حسن ہے تو حسن کو بے نام دیکھا چاہیے آخری بات یہ کہ روشنی کا رنگ بھی تو پیلا ہے اور روشنی علم ہے۔