یہ دیکھتے ہوئے کہ 4جولائی تک امریکی فورسز کا افغانستان سے انخلا ہوچکا ہوگا،طالبان نے زیادہ سے زیادہ افغان صوبوں پر قبضے کی مہم تیر تر کردی ہے۔خاص طور پر گزشتہ ماہ امریکی فورسز کا باضابطہ انخلا شروع ہوا، تو زیادہ سے زیادہ صوبوں پر قبضے کی دوڑ میں شدت آگئی۔ گزشتہ ہفتے طالبان نے تین صوبوں پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ سرکاری افواج کو سرینڈر پر مجبور کیا۔یاد رہے کہ کابل کے نواح کے چار صوبوں پر طالبان پہلے ہی قابض ہیں۔ افغان فورسز کو طالبان پر فضائی برتری حاصل ہے ۔ ان کے پاس امریکہ اور یورپ کے فراہم کردہ جدید جنگی طیارے اور ہتھیار ہیں۔ لیکن مغربی ذرائع ابلاغ میں چھپ رہاہے کہ طالبان نے گزشتہ چند ماہ میں زمین سے فضا تک مار کرنے والے روسی ساختہ میزائل بھی حاصل کیے ہیں ۔پے درپے فوجی کامیابیوں نے طالبان کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ کیا ۔بلا جھجھک وہ میدان جنگ میں بالادستی کا دعوی کرتے ہیں۔ بظاہر طالبان کی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ وہ جلد افغانستان کے زیادہ ترحصہ پر قبضہ کرلیں گے تاکہ امریکیوں کے انخلاء کے بعد ان کی مذاکرات یا سودے بازی کی پوزیشن مستحکم ہوجائے۔ بغیر کوئی سیاسی سمجھوتہ کرائے طالبان اور کابل حکومت کو اپنے حال پر چھوڑ کرامریکیوں نے اپنا دامن تو چھڑا لیا لیکن خطے کے ممالک کی سلامتی کو خطرات میں ڈال دیا۔جیسے کہ عرض کیا کہ طالبان کے حوصلہ بلند اور عزائم راسخ ہیں کہ وہ جلد کابل پر قبضہ کرلیں گے۔ رفتہ رفتہ طالبان کے کمانڈروں اور ان کے مذاکرات کاروں کے درمیان بھی فاصلے بڑھتے نظر آتے ہیں کیونکہ مذاکرات کارجو وعدے دوحہ میں کرتے ہیں ان پر عمل درآمد کرانا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ افغانستان کی حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور طالبان کا مقابلہ نہ کرسکنے اور اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافے کے بجائے وہ اپنی ہر ناکامی کاذمہ دار پاکستان کو قراردیتی ہے۔ حالانکہ پاکستان کی خواہش اور کوشش رہی ہے کہ امریکی طالبان اور کابل حکومت کے مابین سیاسی سمجھوتہ کراکررخصت ہو۔عذر تراشنے میں امریکیوں سے زیادہ اور کوئی تاک نہیں۔ انکل سام کہتاہے کہ القاعدہ کا وجود افغانستان سے معدوم ہوچکاہے۔ طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ القاعدہ یا امریکہ مخالف کسی بھی گروہ کو پناہ نہیں دیں گے، لہٰذا امریکہ کی سلامتی کو لاحق خطرات ٹل گئے ہیں۔ان کا افغان مشن تمام ہوچکا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو صاف نظر آتاہے کہ اب اس کی توجہ کا مرکزیا ہدف چین ہے۔جس کی ابھرتی ہوئی معیشت، عسکری قوت، ٹیکنالوجی میں مہارت اور سفارتی اثر ورسوخ انکل سام کو ایک آنکھ نہیں بہاتا اور وہ اس کا راستہ روکنے کی ٹھان چکاہے۔یہی حال بیس کے لگ بھگ دوسرے اتحادیوں کا ہے جن کی افواج افغانستان میں تعینات ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کے فراہم کردہ اعداد وشما رکے مطابق محض گزشتہ تین ماہ میںسترہ سو سے زائد شہری پرتشدد واقعات میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔جس رفتار سے افغانستان کی سرکاری فوج طالبان کے حملوں کے سامنے پسپا ہورہی ہے اگر یہ سلسلہ رکا نہ تو افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے کو کوئی روک نہ سکے گا۔ اس صورت میں مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان کا رخ کرے گی، اگرچہ اس مرتبہ سرحد عبور کرنا آسان نہیں کیونکہ باڑ لگ چکی ہے اوربغیر ویزے کے سفرممکن نہیں رہا۔ اس کے باوجودعالمی ماہرین کا خیال ہے کہ ہزاروں نہیں لاکھوں مہاجرین پاکستان میں پناہ کے لیے سرحد پر کھڑے ہوں گے۔دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایک غیر مستحکم افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ منحرفین کے گروہ جنہیں پاکستان مخالف ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں تیز ترکرسکتے ہیں۔ مہاجرین کے بھیس میں ایسے ہزاروں تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیںجن کی شناخت مشکل ہوجائے گی۔ چین بھی افغانستان میں عدم استحکام کے امکانات سے ہماری ہی طرح پریشان ہے۔ وہ نہیں چاہتاہے کہ یہ ملک کسی بحران کا شکار ہو76-کلو میٹر کے لگ بھگ سرحد چین اور افغانستان کی مشترک ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سرحد کی دوسری جانب چین صوبہ سنکیانگ واقع ہے جہاں پہلے ہی ایک تحریک برپا ہے ۔ علاوہ ازیں سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مبینہ ناروا سلوک کی دلخراش خبروں اور تبصروں سے مغربی میڈیا اٹا پڑا ہے۔ یہ ساری اطلاعات دنیا بھر کے مسلمانوں کو چین کے خلاف اشتعال دلاتی ہیں۔ سنکیانگ کو دنیا بھر میںانسانی حقوق کے سنگین مسئلہ کے طور پر متعارف کرادیاگیا ہے۔ چین کو خدشہ ہے کہ افغان سرزمین کو چین کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔ چنانچہ چین افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان اور افغان حکومت کے ساتھ مل کام کررہاہے۔اس تناظر میں گزشتہ ہفتے تینوں ممالک کے وزراء خارجہ نے تعاون کے لیے ایک آٹھ نکاتی سمجھوتہ پر بھی ا تفاق کیا ہے۔ امریکہ کے سیکرٹری دفاع اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر نے حالیہ دنوں پاکستان کے جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈکٹر معید یوسف کے ساتھ افغانستان کی صور ت حال پر تبادلہ خیال کیا۔امریکہ کو احساس ہوا ہے کہ فوجی انخلاء کے بعد افغان امور میں اپناوجود برقراررکھنے کے لیے اسے ہمسائیہ ممالک بالخصوص پاکستان کی مدد درکار ہے۔ افغانستان کے دیگر ہمسائیہ یعنی وسطی ایشیائی ممالک روس کے زیر اثر ہیں لہٰذا وہ غالباً امریکہ کی کوئی مدد نہ کرپائیں۔پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو افغانستان میں امریکی اثر ورسوخ کے قیام کی ضمانت دے سکتاہے لیکن پاکستان کے بھی اپنے تلخ تجربا ت ہیں جو اسے تعاون اور اشتراک کو ایک حد تک محدود رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔پاکستان بخوبی جانتاہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی محض اس وقت تک برقراررہتی ہے جب تک آپ اس کی سیاسی، دفاعی اور سفارتی ترجیحات کا حصہ رہتے ہیں۔ ایک بار پھر امریکہ چاہتاہے کہ پاکستان اسے فضائی اڈہ فراہم کرے تاکہ وہ افغانستان پر نظر رکھ سکے۔ اسٹرٹیجک امور کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ اس اڈہ سے افغانستان پر کم چین اور پاکستان پر زیادہ نظر رکھے گا۔ چنانچہ حکومت پاکستان نے اڈہ فراہم کرنے انکار کردیا۔ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ پاکستانی رائے عامہ کسی بھی بیرونی طاقت کے آلہ کار بننے کے سخت خلاف ہے۔خو دوزیراعظم عمران خان بھی گزشتہ دو دہائیوں سے افغانستان میں جاری جنگ کے سخت ترین ناقد رہے ہیں۔ پاکستان نے امریکہ اور افغانستان پر واضح کیا ہے کہ اس کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ طالبان کو اپنی مرضی کے رنگ میں رنگ سکے۔ جتنا تعاون ممکن تھا اسلام آباد نے فراہم کیا۔ اب امریکہ اور افغان حکومت اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کا ملبہ پاکستان کے سر ڈال کر اپنی ذمہ داری سے جان نہیں چھڑاسکتے لہذا انہیں طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار کا راستہ نکالنا پڑے گا۔