فارسی کی مشہور مَثَل ہے "اصفہان، نصف جہان"۔ لاہوریے کہتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ اس حساب سے، دنیا کے ننانوے فیصد لوگ، پیدا ہو کر بھی پیدا نہیں ہوئے! یا یوں کہہ لیجیے کہ اس بے خبر خلقت کا وجود، محض اعتباری ہے! ان شہروں کی دلآویزی اور بزرگی برحق، لیکن پوری دنیا میں ایک دیار ایسا ہے، جس کی جاذبیت نے، واقعی نصف جہان کو جکڑ رکھا ہے۔ یروشلم کی سَیر کے بغیر، جہاں گردی کہیے یا "ابن ِبطوطیت"، خام ہیں! یروشلم کا بھی وہ مختصر سا ایک مربع میل کا متنازعہ ٹکڑا، جسے شہر ِقدیم کہا جاتا ہے، پانچ دس نہیں، سینکڑوں زیارتوں کا گھر ہے۔ شہر ِقدیم، چار کوارٹروں میں تقسیم ہے۔ یہودی، عیسائی، آرمینی اور مسلمان کوارٹر۔ کہنا چاہیے کہ ع بہے ہیں یہاں چار سمتوں سے دریا ایک عالَم کا سکون و اضطراب، اس ایک میل کے رقبے سے وابسطہ ہے۔ جنہیں اس شہر سے کوئی علاقہ نہیں، حیرت کرتے ہیں کہ ذرا سی زمین کے لیے، اتنی تگ و دو؟ ایسی کھینچا تانی؟ اس قدر کْشت و خون؟ یہ بات وہ نہیں کہہ سکتا، جسے اس خطے کی گذشتہ تین ہزار سالہ تاریخ کی کم از کم شد بد ہو۔ پچھلی ایک صدی، اور خصوصا ستر برسوں میںثابت ہو چکا ہے کہ دنیا چَین کا سانس، اس وقت تک نہیں لے سکتی، جب تک یروشلم کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ چند روز پہلے، ایک کالم نگار نے خوش خبری سنائی کہ دنیا اب مذہب کی بنیاد پر کبھی جنگ نہیں کرے گی! سبحان اللہ! ہمارے دانشور، گھر بیٹھے بیٹھے دنیا بھر کے مسائل سمجھ بھی لیتے ہیں اور ان کے حل بھی پیش کر دیتے ہیں! وہی بات ہوئی کہ ع دلی نہیں دیکھی، زباں داں یہ کہاںہیں؟ خدا جانے یہ "بے خبری" اختیاری ہے یا جبری، ہے ع اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!ا کا محل! فلسطین اور کشمیر کے مسائل کی موجودگی میں، اس طرح کا دعویٰ، بڑی جرأ ت کا کام ہے! پرانی جنگوں کو تو چھوڑیے، افغانستان میں اٹھارہ سال سے جو لڑائی جاری ہے، وہ مذہبی نہیں تو اَور کیا ہے؟ اس خمس صدی میں، جو نصف درجن ملک تباہ و برباد کر دیے گئے، ان کے پیچھے بھی مذہبی جنون کے سوا اَور کیا ہے؟ کہا جا سکتا ہے کہ عراق پر حملے کا اصل مقصد، تیل چْرانا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ بڑا مقصد، خطے میں انتشار پیدا کرنا تھا۔ یہ انتشار اور بے امنی، کون چاہتا ہے اور ان جنگوں کا ریموٹ کِس کے ہاتھ میں ہے، اسے سمجھنے کے لیے، پہلی جنگ ِعظیم کا یہ واقعہ سنیے۔ بینجمن فریڈمین امریکن یہودی تھے۔ فریڈمین ارب پتی اور صیہونی تحریک کے زبردست حامی ہوا کرتے تھے۔ پہلے پہلے تو صیہونیت اور یہودیت میں، یہ بھی فرق نہ کر سکے۔ مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہودیوں کی تحریک کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے۔ یہودیوں سے ہمدردی ایک چیز تھی، لیکن صیہونیوں کی مجرمانہ حرکتیں اَور ہی عزائم کا پتا دے رہی تھیں۔ غرض، فریڈمین اتنے بدظن ہوئے کہ نہ صرف اس تحریک سے علیحدہ ہو گئے، بلکہ باقی عْمر ان کی سازشوں کو بے نقاب کرتے رہے۔ معلوم ہے کہ اسرائیل کی اصل بنیاد، انیس سو سولہ میں بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے رکھی گئی تھی۔ اس کی کہانی فریڈمین نے بیان کی ہے۔ بتاتے ہیں کہ پہلی جنگ ِعظیم کے دوران، عین اس وقت جب جرمنی پیش قدمی کر رہا تھا اور برطانیہ کے حوصلے ٹوٹ رہے تھے، صیہونیوں نے برطانوی جنگی کابینہ کے ساتھ ملاقات کی اور ان سے کہا کہ آپ یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔ جرمنی کی شرائط ماننے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر امریکہ اس جنگ میں آپ کا اتحادی بن کر، شریک ہو جائے، تو آپ کی فتح یقینی ہے۔ امریکہ کی شمولیت کو ہم یقینی بنا سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ جنگ جیتنے کے بعد، آپ فلسطین ہمیں دے دیں گے۔ برطانیہ لڑتے لڑتے ادھ موا ہو چکا تھا۔ اس خبر سے، سوکھے دھانوںپانی پڑ گیا۔ یہودیوں سے وعدہ کر لیا گیا اور اس طرح بالفور ڈیکلریشن وجود میں آیا۔ یاد رہے کہ امریکہ اس وقت تک، نہ صرف یہ کہ جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا، بلکہ لگتا تھا کہ اس کی ہمدردیاں، جرمنی کے ساتھ ہیں! انیس سو سولہ کے اسی معاہدے کی بنیاد پر، یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کا جو آغاز ہوا، وہ سَن اڑتالیس میں، اسرائیل پر منتج ہوا! تاریخ گواہ ہے کہ صیہونیوں کی امریکن صدور پر گرفت، آج تک ڈھیلی نہیں ہوئی۔ جو امریکن یہودی، "نرے" اور سیدھے سادھے یہودی ہیں، خود بھی صیہونیوں کی غارت گری سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین، جب تک حل نہیں ہوتا، دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ہرچند کہ یہ مسئلہ سراسر مذہبی ہے، اس میں پوپ فرانسس جیسے امن پسند رہنما کی آواز، نقار خانے میں طوطی سے زیادہ نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں کا اقلیتی انتہا پسند فرقہ ایوینجیلیکل، جو صیہونیوں کا سب سے بڑا مددگار ہے، امریکن کانگرس میں بڑا وزن رکھتا ہے۔ ایک سال پہلے، اس خاکسار کو ارض ِفلسطین اور اسرائیل دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ اپنے مظلوم بھائیوں کی ابتلا، خود تو دیکھی، خدا کا شکر ہے کہ ایک ڈاکومینٹری بنا کر، پیش بھی کی تھی۔ فیس بک پر یہ ڈاکومینٹری پونے تین لاکھ دفعہ دیکھی جا چکی ہے۔ سفر نامہ، چونکہ ان سطور میں پیش کیا جا چکا ہے، تفصیل میں پڑے بغیر، صرف اتنا کہنا ہے کہ وہاں کے جتنے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں سے مِلنا ہوا، سارے "ہرماگِدو"، "آرماگَیڈن" اور "ہرمجِدْن" کے منتظر تھے! دنیا کا سکون، ایک مذہبی ریاست اسرائیل نے غارت کر رکھا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ مذہب کی بنیاد پر جنگیں نہیں ہوں گی، کْور چشمی ہے! علامہ اقبال کہتے ہیں۔ سر زند از ماضی ِتو، حال ِتو خیزد از حال ِتو، استقابل ِتو یعنی، حال ماضی کا تسلسل ہے۔ اور اسی سے مستقبل کا پتا چل جاتا ہے! دنیا سَر جوڑ کر، اگر اس مسئلے کا حل نہیں نکالتی، تو یہ جنگ، جسے "اْم الحروب" کہنا چاہیے اور جو پچھلے ستر برسوں سے، کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، بڑھتی ہی جائے گی! بینجامن نتن یاہو کی فتح، اور اس میں امریکن صدر کا کردار، مزید خرابی کی نشانیاں ہیں!