جب میں نے پہلا کالم لکھا تو مجھے یاد ہے کہ اس کی بنیاد کیا تھی۔ یہ میں اس کالم کی بات نہیں کر رہا جو ایک پیشہ ور صحافی کے طور پر میں نے لکھنا شروع کیا‘ بلکہ اس شوقیہ کالم کی بات کر رہا ہوں جو ایک درجہ دوم(سکینڈ ایئر) کے طالب علم نے اپنے شہر کے ایک مقامی اخبار میں لکھا تھا ۔ہوا یوں کہ ضلعی ہیڈ کوارٹر پر نیشنل بنک کا وہی درجہ ہوتا تھا جو ملک میں سٹیٹ بنک کا ہوتا ہے۔ گویا بڑا مقام تھا۔ یہ بنک ضلع کچہری کے اندر اسی بلڈنگ میں قائم تھا جو قیام پاکستان سے پہلے بھی اسی درجے اور نوعیت کے بنک کے لئے مختص تھی۔ ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا نیشنل بنک کا بورڈ اپنی جگہ سے جھکڑ یا کسی اور وجہ سے ہل گیا تو نیچے عمارت پر کھدا بنک کا اصل نام ظاہر ہو گیا۔ یہ نام تھا امپیریل بنک آف انڈیا۔بس اس طالب علم کا موقع مل گیا اور میں نے اسے بنک بلکہ سرکار کی نالائقی کے طور پر اپنے کالم کا موضوع بنایا۔ یہ اتنی پرانی بات مجھے اس لئے یاد آ رہی ہے کہ اب کی بار ایک مجوزہ صدارتی آرڈی ننس کی وجہ سے سٹیٹ بنک آف پاکستان کا بورڈ ہل گیا ہے اور نیچے نام ظاہر ہو گیا ہے۔ آپ اسے امپیریل بنک آف پاکستان سمجھ لیجیے یا کوئی اور نام دے دیجیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کہہ لیجیے یا کوئی اور خوبصورت نام تلاش کر لیجیے۔ بہر حال سٹیٹ بنک اب عالمی اقتصادی سامراج کی علامت بننے جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ سٹیٹ بنک کی خودمختاری کے نام پر کیا جا رہا ہے مگر اس کے بارے میں ماہرین کی جو رائے آ رہی ہے وہ بتاتی ہے کہ اب سٹیٹ بنک کا گورنر گویا پاکستان میں سامراج کا اقتصادی وائسرائے ہو گا۔ وہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو جواب دہ نہ ہو گا۔ حتیٰ کہ پاکستان کا وہ طاقتور ادارہ جسے بڑا خونخوار تصور کیا جا رہا ہے‘ وہ بھی اس کے کسی ملازم یا سربراہ پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا۔ یہ ہماری وزارت خزانہ کے کنٹرول سے تو بالکل باہر ہو گا۔ اس موضوع پر میں نے ڈاکٹر اشفاق اور ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کی گفتگو بھی سنی ،میں اور اس بات کا قائل ہو گیا ہوں کہ اس ملک کو اقتصادی طور پر پنجہ یہود میں دیا جا رہاہے۔ ڈاکٹر اشتیاق ایک لمبے عرصے تک پاکستان حکومت میں اہم اقتصادی ذمہ داریوں پر فائز رہے ہیں۔وہ آئی ایم ایف میں جانے کے بڑے مخالف تھے وہ بتاتے ہیں میں نے برسوں آئی ایم ایف سے مذاکرات کئے ہیں۔ہر بار وہ کڑی شرائط کا انبار لے کر آتے تھے۔ مگر بات چیت کی میز پر ان کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ اس پر انہیں ایسی شرائط نرم کرنا پڑتیں یا واپس لینا پڑتیں۔ اس بار مگر ہمارے اقتصادی کرتا دھرتا جو شرائط مانتے جا رہے ہیں یہ ہر لحاظ سے غیر معمولی اور تباہ کن ہیں۔ ان کا کہنا ہے میں نے ایشیا کے مختلف مرکزی بنکوں کے اختیارات کا مقابلہ پاکستان کے مرکزی بنک کے اختیارات سے کیا ہے۔ہم ہر لحاظ سے ہندوستان‘ بنگلہ دیش‘برازیل‘ ملائشیا سے اس معاملے میں کم نہیں ہیں۔ہاں جاپان اور کوریا کے مرکزی بنک ہم سے زیادہ خود مختار ہوں گے۔ مگر کسی نے غور کیا ان کی معیشت کہاں پہنچی ہوئی ہے۔ ہماری معیشت بھی اس سطح پر آ جائے تو ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ اس وقت ملک کو چھ سات فیصد شرح نمو کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو ملازمتیں دے سکیں۔اس کے لئے سٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ ہی کو نہیں منصوبہ بندی کے بھی اداروں کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ ہم سٹیٹ بنک کو آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم اپنی بات آئی ایم ایف سے منواتے رہے ہیں۔اس بار جانے کیا ہوا ہے کہ ہم عالمی استعمار کی ہر شرط مانے جا رہے ہیں اور اپنی خود مختاری و خودانحصاری کا سودا کرتے جا رہے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اس موضوع پر سب سے پہلے ہمارے دوست ممتاز معیشت دان ڈاکٹر شاہد صدیقی نے میرے پروگرام میں تفصیل کے ساتھ یہ نقشہ کھینچا تھا کہ ہم کس طرح اپنی آزادی کا سودا کرنے جا رہے ہیں۔ گورنر کی مدت ملازمت ہی بڑھائی نہیں جا رہی بلکہ اسے اتنا خودسر کیا جا رہا ہے کہ کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا ہم پر کیا اثر پڑ رہا ہے‘ اب بھی سمجھ نہیں آ رہی۔یہ آخری حرکت ملاحظہ کی ہے کہ ایک آرڈیننس کے ذریعے حکومت کو اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ پانچ روپے تک بجلی کی قیمت بڑھا سکتی ہے۔اس کے نتائج کا اندازہ ہے کہ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط نہیں تو اور کیا ہے۔ جب روپے کی قدر بڑھنا شروع ہوئی غالباً عبوری دور میں یا شاید مفتاح اسماعیل کی وزارت خزانہ میں تو اسحق ڈار نے لندن ہی سے کہا تھا کہ یہ میری پالیسیوں سے انحراف کی ابتدا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہم بالآخر آئی ایم ایف میں جا رہے ہیں۔ میری پالیسی پر عمل جاری رہتا تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔ یہ بات درست ثابت ہوئی۔جب عبوری دور میں شمیم اختر وزیر خزانہ بنیں تو میں نے تحریری طور پر عرض کر دیا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں مجھ جیسے عامی کو اندازہ ہو گیا تھا تو ماہرین کیا سوئے پڑے تھے۔ ہمارے سامنے دو راستے تھے، سی پیک یا آئی ایم ایف۔ نئی حکومت نے آتے ہی اعلان کیا کہ سی پیک کو ایک سال کے لئے مؤخر کر دینا چاہیے۔ سی پیک میں ہم شوقیہ نہیں گئے تھے۔ یہ قدرت کی طرف سے ہمارے لئے ایک عطیہ تھا۔ہمیں جس چھ سات فیصد شرح نمو کی ضرورت تھی وہ اسی طرح حاصل ہو سکتا تھا۔ رہے قرضے تو ریاستوں کے قرضوے میرے آپ کے ذاتی قرضوں کی طرح نہیں ہوتے۔ترقی کرتی ہوئی قوموں کو اگر کوئی قرض دیتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس قابل ہیں کہ ان پر اعتبار کیا جا سکے۔ کوئی ایسے قرضے نہیں دیا کرتا اور ترقی پذیر ممالک کے لئے شرح نمو بڑھانے کے لئے یہ ضروری ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ کن شرائط پر لئے جا رہے ہیں۔ ترقی پذیر ہی نہیں بڑی معیشتوں کو بھی قرضے کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ پر قرضہ 23ٹریلن ڈالر ہے جو ان کی مجموعی سالانہ آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔ اسے ٹریژری بل کہتے ہیں۔ ہم نے غلط پروپیگنڈہ شروع کیا اور خود کو آئی ایم ایف کی چنگل میں اس طرح پھنسایا کہ عوام اس کے شکنجے میں بلک رہے ہیں۔ خدا شاید ہمارے سب گناہ معاف کر دے مگر یہ گناہ معاف ہونے والا نہیں۔ ہرگز نہیں۔ بہت سا پانی پلوں تلے بہہ چکا‘ مگر اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں۔ ہم نے ٹرمپ کے زمانے میں امریکہ سے معمول کے تعلقات رکھنے کی بڑی قیمت ادا کی ہے‘ اب جوبائیڈن کے بعد شاید ہمیں سانس لینے کا موقع مل جائے۔ نئی امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ چین کے دوسری ریاستوں سے تعلقات پر زیادہ اعتراض نہیں کرے گا۔ غور کریں شاید ہمیں راستہ مل جائے۔ اب کہتے ہیں بجلی زیادہ پیدا ہو گئی ہے۔ خدا ان کے حال پر رحم کرے۔ اس کا مطلب ہے کہ صنعتی شعبہ اس رفتار سے کام نہیں کر رہا کہ اسے انرجی کی ضرورت پڑے۔ یہ بڑی منفی بات ہے۔ اس طرح ہم اپنی امپورٹ کم کرنے پر فخر کرتے ہیں‘اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہمیں مشینری‘خام مال‘ انرجی کے لئے تیل کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی انتہائی منفی بات ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھا کر ہمیں کیا ملا۔ہم پہلے بھی 25ارب ڈالر کی برآمدات کے اردگرد تھے۔کبھی دوچار ارب کم کبھی ایک آدھ ارب زیادہ۔آج بھی وہاں ہیں۔جب کہ ہمیں پٹرول‘خوردنی تیل کپاس اور اب کی بار تو گندم چینی اور شاید سبزیاں تک باہر سے منگوانا پڑ رہی ہیں وہ ہم نے ڈالر مہنگا کر کے سب مہنگی کر دیں۔کتنے نفلوں کا ثواب ملا ہمیں۔ ہم پہلے والوں کو کوس کر دل کی تسلی تو کر سکتے ہیں مگر اپنے وطن کے عام شہری کی مشکلات کا کوئی علاج نہیں کر پا رہے۔اب طے کر لو ایسٹ انڈیا کمپنی کون ہے۔سی پیک یا آئی ایم ایف۔ وہ سب ماہرین جو چاہے اقتصادیات کے ہوں یا امور خارجہ کے جنہوں نے پاکستان کو اس گہری غار کی طرف دھکیلا ہے۔ وہ سب قابل سزاہیں۔اب امپیریل بنک آف پاکستان ہم پر مزید کاٹھی ڈالنے کا منتظر ہے۔