گزشتہ تیس برسوں کے دوران جب بھی کوئی بھارتی حکمران یابھارت کاکوئی اعلیٰ عہدے دارسری نگرواردہوا توملت اسلامیان کشمیرنے فقیدالمثال ہڑتال اوربلیک ڈے سے اس کااستقبال کیا۔لیکن گزشتہ تین دہائیوں پرمحیط کشمیری کی عسکری جدوجہد کے دوران یہ پہلاموقع تھاکہ حریت کانفرنس نے کسی بھارتی اعلیٰ عہدے دار کی سری نگرواردہونے پرہڑتال کی کوئی کال نہیں دی ۔ اتوار22جون کوبھارتی گورنر ستیہ پال ملک نے سرینگر میں ایک تقریب کے دوران یہ دعویٰ کیا کہ حریت کانفرنس مذاکرات کے لیے تیار ہے۔میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں قائم حریت دھڑے نے اس اعلان کو مثبت تبدیلی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دلی اور اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔میرواعظ کے ساتھی پروفیسر عبدالغنی بٹ کہتے ہیںکہ کشمیر کا مسئلہ میدان جنگ میں نہیں بلکہ بات چیت کی میز پر حل ہوسکتا ہے۔ اگر واقعی نئی دلی اس بات کی قائل ہوگئی ہے تو حریت کانفرنس مذاکرات کی کسی بھی کوشش میں تعاون دینے کے لیے تیار ہے۔اس دوران26جون کومقبوضہ کشمیرکے دارالحکومت سری نگرمیںواردہوئے بھارت کے نئے وزیر داخلہ امیت شاہ جوایک کریمنل ہے اورمودی کی طرح جس کے ہاتھ خون مسلم سے رنگین ہیں نے حریت کانفرنس کیساتھ مذاکرات کاکوئی عندیہ نہیں دیابلکہ علیٰ الرغم اس کے قابض فوج ،بھارت کے جاسوس اداروں،ایجنسیوںکے اعلیٰ عہدے داران اورگورنر انتظامیہ سے مختلف میٹنگز کے دوران کشمیرمیں جاری آزادی کی تحریک سے متعلق حسب توقع وہی زبان ،وہی لہجہ اختیارکیااوروہی تیوردکھائے جواس کے پیشرواختیارکرتے رہے اوردکھاتے رہے ہیں۔ تحریک آزادی کوکچلنے کے لئے ’’زیروٹالرنس ‘‘کی ہدایات دیتے ہوئے مودی کے نئے وزیرداخلہ نے قابض فوج کوکشمیرمیں اپنی سفاکانہ اورخونین کارروائیاں بدستورجاری رکھنے پرفوجی ہائی کمان کوتھپکی دی۔ بھارتی وزیرداخلہ کے دورہ سری نگرکے دوران راقم السطور سوچتا رہاکہ بھارتی چانکیہ پالیسی ساز ایک ہی راگ الاپتے رہے ہیں کہ جموںوکشمیرمیںحالات بگاڑنے کے پیچھے دست ِپاکستان ہے ،لیکن اب وہ کیاکہہ رہے ہیں جبکہ کٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ کادعویٰ ہے کہ گذشتہ 3برسوں کے دوران 730مجاہدین شہیدہوئے اوریہ سب وہ کشمیری نوجوان تھے کہ جواعلیٰ تعلیم یافتہ اورڈگری ہولڈرتھے کیایہ کسی کے اکسانے پراپنی متاع عزیزلٹانے کے لئے فریب میں آسکتے تھے یایہ کہ وہ گذشتہ تیس برسوں کے بھارتی ظلم میں پیداہوئے اورجوان ہوئے سب ظلم سہتے رہے اوراس ظلم سے چھٹکاراپانے کے لئے وہ سربکف اورتن بہ کفن ہوگئے۔ دوسال قبل مودی نے سری نگرمیں کہاتھاکہ گالی اورگولی سے کشمیرکے معاملے کاحل نہیںبالالفاظ دیگروہ کہہ رہے تھے کہ کشمیریوں کے گلا کا ٹ کاٹ کر گلے لگایاجائے، سابق بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کوئی اور ہی بات کر رہاتھا ،جبکہ بھارت کے آج کے کریمنل وزیرداخلہ امیت شاہ دونوں سے ہٹ کر اپنی ہی ہانکتے چلے گئے اور میر واعظ کو بزبان حال جواب دے گئے کہ تمہاری بات چیت کی پیش کش؟ ہمارے سامنے مذاق ، ٹھٹھ اور مخول کے سواکوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ مگریہاںکچھ ایسابھی دکھائی دے رہاہے کہ حریت قیادت جوکچھ مدت کے لئے باشعورہوچکی تھی اب پھر انوکھی ہوگئی ہے،پل میں تولہ پل میں ماشہ، پہلوان بھی مگردوسرے لمحہ خامشی و سرد مہری کے زمستان ۔ جیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ یہ تیس سالہ جدوجہدمیں پہلاموقع تھاکہ جب حریت کانفرنس کی طرف سے کسی بھارتی وزیرداخلہ کی سری نگرآمدپرکوئی ہڑتال نہیں کی گئی اورنہ کوئی مذمتی بیان۔ مان لیاکہ اس وقت حریت کانفرنس سے وابستہ کئی لیڈران اورکئی ارکان بھارتی تفتیشی ادارے (NIA)کے شکنجے میں ہیں ان میں سے کچھ مختلف بھارتی جیلوں میں پابندسلاسل ہیں اورکچھ کاتعاقب ہورہا ہے لیکن کیا زہرناک آزمائشیں اس راہ کاجزنہیں۔مقبوضہ کشمیرکی کئی مجاہدین تنظیمات کی قیادت مدت مدیدسے بھارتی عقوبت خانوں میں ہے جن میں سے کئی عمرقیدکی سزابھگت رہے ہیں لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ مجاہد تنظیمات قابض بھارت کے سامنے سپراندازہوجائیںآج تک کسی بھی مجاہدتنظیم نے بھارت کے سامنے اس وجہ سے ہاتھ کھڑے نہیں کئے کہ ان کی قیادت بھارتی جیلوں میں مقیدہے ۔اس لئے حریت کانفرنس کووقت قیام سجدہ ریزہرگزنہیں ہوناچاہئے ۔حالات کی تمازت اور موسم کے شدائدکے سامنے دشمن سے متعلق نرم گوشہ اختیارکرلینااس طرح کا بدلائوتحریک آزادی کے ان متوالوں کے شایان نہیں۔ کشمیری مسلمان پہلے ہی ایک بڑے عتاب کے شکارہیں کہ کشمیرکے دو بھارت نوازخاندان شیخ خاندان اورمفتی خاندان جنکے آج فاروق عبداللہ ، عمرعبداللہ اورمحبوبہ مفتی جیسے بے ضمیر تخت وتاج کے بندے، ساون کے ا ندھے، اہل وطن کے مصائب من اغیار کے جرائم میں شراکت دار ، دہلوی پیادے، قتل ِانصاف کو عدلِ نوشیروان بتانے و الے ، درباری قصیدہ خوان، دلی کی رضا جوئی میں گن گانے والے کہ جو تم کو ہو پسند وہی بات کریں گے تم دن کو اگر رات کہو رات کہیں گے