واسطہ یوں رہا سرابوں سے آنکھ نکلی نہیںعذابوں سے میں اکیلا تھا اور تنہا تھا شہر لایا ہوں اک خرابوں سے میرے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا کہ جو ہمسفر کا انتظار کرتے رہتے ہیں ان میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے لیکن یہ بھی درست کہ کچھ راستے تنہا نہیں سمٹتے۔ مگر پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے والے ایسا کب سوچتے ہیں۔ اصل میں مجھے آج وزیر اعظم عمران خاں کے بارے میں بہت ہی اہم بات کرنا ہے کہ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ وہ ناکام ہو چکے ہیں۔ لیکن پہلے اپنی ایک یاد آپ کے ساتھ شیئر کرنی ہے کہ ایک روز ہمارے دوست احمد عقیل روبی مرحوم ملے تو ہاتھ دبا کر کہنے لگے۔ یار تمہاری ایک نظم کی آخر سطور بہت ہانٹ کرتی ہیں۔ پھر وہ مصرع دہرانے لگے: چھوڑ دیا ہے میں نے باہر آنا جانا تم کیا جانو میرے تنہا ہونے میں میری کتنی قوت صرف ہوئی ہے تب کہیں جا کر میری طاقت صرف ہوئی ہے بات تو یہ ریاضت کی تھی اور اپنے آپ کو مجتمع کرنے کی۔ مگر اس کا تعلق یا علاقہ عمران خان سے کیا ہے‘بالکل ہے۔ ہوا یوں کہ مجھے کسی نہایت اہم واسطے سے ایک بات معلوم ہوئی ویسے میں نے کبھی ایسے رابطوں واسطوں کا ذکر نہیں کیاکہ اکثر لکھنے والے رعب ڈالنے کے لئے بتاتے رہتے ہیں۔ بہرحال ایک ہمارے دوست ہی چڑیا کبوتر کی طرح اندر کی خبر لاتے ہیں۔ مجھے ان پہ اس لئے اعتماد ہے کہ وہ نیک سیرت شخص ہیں۔ وہ کہیں فرمانے لگے’’یار ! لوگوں کو کیا پتہ کہ کس قدر مجبور ہے‘ مفاد پرست لوگوں میں گھرا ہوا ہے‘ کسی کو معلوم نہیں پاکستان کی سرحدی صورتحال کس قدر تشویشناک ہے۔ایک بات طے ہے کہ اگر پاکستان کے ساتھ کوئی ایک شخص مخلص ہے تو وہ عمران خان ہے‘‘ میں بہت دیر تک سوچتا رہا اور ضروری خیال کیا کہ جہاں میں حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہوں وہاں ایک قابل اعتبار خفیہ گواہی کو ایسے کالم کا حصہ بنائو ویسے یہ بات دل کو بھی لگتی ہے: کچھ نہ کہتا قسم ہے لفظوں کی صرف ہوتا جو قافیہ رکھنا وقعتاً میں سوچتا ہوں کہ ایک شخص خواہ وہ بشری کمزوریوں کے تحت سرنڈر کر بیٹھا یا بساط وقت پر غلط چال چل بیٹھا لیکن اس کی نیت پر شک کرنا زیادتی بھی تو ہو سکتی ہے۔کس کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنی شہرت کا بیڑہ غرق کر لے۔ کون چاہتا ہے کہ وہ اپنے تمام وعدوں اور دعوئوں کا جنازہ نکال دے۔ وہ اتنا سنگ دل کیسے ہو سکتا ہے کہ جس عوام کو وہ ریلیف دلانے آیا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے واسطے اقتدار میں آیا انہیں مہنگائی چکی میں پیس دے۔ بس حکمت عملی الٹ پڑ گئی: کم ہونگے اس بساط پہ ہم سے قمار باز جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے ان کوتاہیوں کے دوسری طرف دیکھتے ہیں تو اس کا کردار شفاف نظر آتا ہے اس کے مقابل جب ہم پچھلے حکمرانوں کو دیکھتے ہیں آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔ ان کے کالے کرتوتوں سے صفحے کے صفحے کالے کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً میں ابھی حسن نثار کو سن رہا تھا اور اس نے نہایت دکھے دل کے ساتھ پچھلی حکومتوں کے صرف تین لوگوں کی سکیورٹی کے اعداد و شمار پیش کئے توسچ مچ چودہ طبق روشن ہو گئے۔ نواز شریف ساڑھے پانچ ارب روپے شہباز شریف نے لگ بھگ ساڑھے ساتھ ارب اور زرداری نے ساڑھے تین ارب روپے سکیورٹی پر اڑا دیے۔ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے کہ اس سے بہتر تھا کہ وہ کھا جاتے مگر قومی دولت یوں نہ لٹاتے۔ تم محبت کو تجارت کی طرح لیتے تھے یوں نہ ہوتا تو تمہیں اس میں خسارا ہوتا یہ سب تو ٹپ آف دی آئس برگ کی طرح ہے۔ بہت کچھ پانی میں ہے یا زیر زمین ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ذات سے آگے نہیں دیکھا۔ قائد ثانی نے کبھی قائد اعظم کے بارے میں بھی پڑھا ہوتا کہ وہ کابینہ کے اجلاس کے بعد اضافی بتیاں بجھاتے پھرتے تھے۔ جنہوں نے کہا کہ اجلاس میں آنے والے گھر سے چائے پی کر آئیں‘ غریب ملک اس چائے کا بھی متحمل نہیں انہوں نے تو وطن کے مقدر کی بتیاں گل کر دیں۔ چائے اور کھانے کو چھوڑ دیں یہ تو سارے وسائل ہی کھا گئے۔ ملک کو مکان کی طرح چلایا اور ساری راس باہر لے جا کر اپنے بچوں کو کاروبار شروع کروائے۔ ان کی عیدیں اور شبراتیں ہی نہیں علاج معالجہ بھی باہر ہے۔ اب بھی وہ باہر بیٹھ کر سیاست کر رہے ہیں۔ مشق ستم اس قوم پر فرما رہے ہیں۔ ان سے تو فوجی آمریت اچھی تھی کہ انہوں نے اقتدار کی تقسیم نیچے تک پہنچائی اور عام سطح پر بلدیاتی الیکشن کروا کے لوگوں کو ساتھ شامل کیا۔ آپ نے مشاہدہ نہیں کیا کہ پچھلی حکومتیں اول تو آخری حد تک بلدیاتی الیکشنز سے گریز کرتی رہیں اور پھر اگر مجبوری میں یہ کڑوا گھونٹ بھرا ہی تو بعد میں آنے والے لوگوں کے بے معنی کر دیا۔وہی جو غالب نے کہا تھا ؎ ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں ہم ہیں ‘تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور بات یوں ہے کہ ہم غلط کو غلط کہتے رہیں گے اور عوام کے مسائل کو سامنے لاتے رہیں گے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ توقع اور امید کرتے ہیں کہ عمران خاں کسی طرح کامیاب ٹھہرے کہ اب واپس پلٹنا ہمیں کہیں کا نہیں رکھے گا۔ کم از کم وہ لوگ تو حیا کریں جو عمران کی شہرت کو کیش کروا کے آئے اور اب وہ اپنے مفادات سے آگے سوچتے ہی نہیں وہ حکومت کو اپنے کاروبار کے تابع کر رہے ہیں کہ یہی کچھ شریف برادران کر رہے تھے۔ یہ لوگ تو پولیس کو بھی سیاسی اثرورسوخ سے آزاد نہیں ہونے دیتے ‘سندھ کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ کچھ شیخ رشید جیسے ہیں بس اللہ ہی ہے کہ کوئی راستہ نکال دے وگرنہ ہر آغاز میں چھلیڈے بیٹھے ہوئے ہیں جو اپنی جون بدلتے رہتے ہیں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: سبز رتوں کی جھلمل میں جب شاخیں پھول اٹھاتی ہیں بہکے بہکے سے رہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں