زندگی صرف امید سے گزرتی ہے۔ امید کے قربے میں پنپتی اور پھیلتی پھولتی ہے! امید ہی اصل ایمان ہے۔ یہ بات سمجھنے اور غور کرنے کی ہے کہ امید ایمان کا حصہ ہے۔ اصل ایمان ہے اسی لیے اس کے مقابل مایوسی اور نا امیدی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ اسلام میں جھوٹ ‘ بددیانتی ‘ مکر و فریب کو کفرنہیں کہا گیا۔ بلکہ ناامید ہونے کو کفر قرار دیا گیا۔ اللہ اپنی آخری کتاب میں انسانوں کو بار بار بتاتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ حالات خواہ کتنے ہی دگرگوں ہوں۔ آس پاس کتنی ہی تاریکی کیوں نہ ہو۔ اس ایک اللہ سے امید ہمیشہ رکھو۔ دعا بھی اسی امید کا نام ہے اور دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا گیا۔ کتنی بھی نمازیں پڑھ لو۔ تسبیحات کر لو۔ جگراتے کاٹ لو۔ اگر اللہ کے سامنے دامن نہیں پھیلایا دعا نہیں مانگی تو آپ عبادت کے ایسنس سے محروم رہے۔ دعا کی زمین میں امید کا بیج پھوٹتا ہے۔ ایک بیمار جب اپنے لیے صحت کی دعا کرتا ہے تو اس میں صحت مند ہونے کی امید پیدا ہوتی ہے۔ ایک بے روزگار جب روزگار کی دعا کرتا ہے تو اس کے اندر روزگار ملنے کی امید پیدا ہوتی ہے ۔ امید انسان کو کائنات کے مثبت توانائی والی میکانزم سے جوڑ دیتی ہے۔ یہ امید جس قدر یقین پر استوار ہو گی اسی قدر اس امید کے بر آنے کے اسباب مہیا ہوتے جائیں گے عمل اور خیر اس کی بنیادی شرط ہے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ امید محض ایک لفظ نہیں۔ یا پھر ناامیدی اور مایوسی محض ایک سوچ نہیں۔ ایک مکمل میکانزم کا نام ہے جو ہمارے وجود میں کارفرما ہوتا ہے۔ اگر ہم پر امید رہیں اور ہر حال میں پر امید رہیں۔ اس بات کا مکمل یقین ہو کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تو ہمارا دماغ اور اس کا سارا سسٹم مثبت توانائی پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ناامیدی گھر کر جائے تو پھر یہ نظام منفی اور تباہ کن توانائی پیدا کرتا ہے جس سے اندرون ذات سے بیرون ذات تک بس شکست و ریخت ہونے لگتی ہے۔ جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔ زندگی میں صرف تاریکی اور ناامیدی دکھائی دیتی ہے۔ اس صورت حال کی شدت ہی جیتے جاگتے انسانوں کو خودکشی پر مجبور کر دیتی ہے۔ سانس اس کی مکمل توضیح اور توجیح بیان کرتی ہے۔ جارج نارتھ آف رائل اوٹاوا میں ایک ماہر سائیکاٹرسٹ اور برین ریسرچر ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر اس نہج پر تحقیق کی ہے کہ ناامیدی کس طرح انسان پر وار کرتی ہے۔ انہوں نے مایوسی کے اس تاریک راز کو دریافت کیا ہے۔ جسے انہوں نے اپنی ریسرچ میں Dark Secret of hoplessnessلکھا ہے۔ ان کے مطابق دماغ میں ایک ایسا خانہ موجود ہے جہاں مایوسی ناامیدی رہتی ہے۔یہ حصہ دماغ کے دو ہیمی سفیئر(hemi sphere)کے درمیان ایک دراڑ کی صورت میں ہے۔ یہ حصہ دماغ کا Defaultیا resting modeکہلاتا ہے۔یہ حصہ اس وقت جاگتا ہے یا متحرک ہوتا ہے جب انسان سوتا ہے۔ دن میں خواب دیکھتا ہے۔(day dreaming)یا پھر بیکار بیٹھا وہ اپنے خیالات کو ادھر ادھر بھٹکنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایسی کیفیت اکثر ہم سب کے ساتھ ہوتی ہے جب ہم خیال کی رو پر بہتے چلے جاتے ہیں۔ کسی خاص موضوع اور منزل کے بغیر یہ خیالات ہمیں اپنے ساتھ بہاتے ہوئے کبھی ہمارے ماضی میں لے جاتے ہیں تو کبھی مستقبل کے اندیشوں اور وسوسوں کی صورت ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ ان لمحات میں انسان کا لمحہ موجود سے تعلق منقطع ہو جاتا ہے یوں وہ ماضی اور مستقبل سے وابستہ خیالات میں بھٹکتا رہتا ہے۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ ماضی میں ہونے والی خوشگوار واقعات کی نسبت ناخوشگوار واقعات پہ زیادہ سوچ بچار کرتا ہے۔ کسی غلط فیصلے کو بار بار سوچ کر خود پر مایوسی اور ناامیدی طاری کر لیتا ہے۔ دماغ کے دو ہیمی سفیئرز کے درمیان جہاں ناامیدی اور مایوسی کا تاریک گوشہ موجود ہے وہ ایسی صورت میں ایکٹو ہو جاتا ہے چونکہ دماغ کے اس سارے پراسس میں ٹائم ایک بنیادی عنصر ہے۔یہ تاریک گوشہ وقت کی رو کو کنٹرول کرنے لگتا ہے اور ایک Stream of Consciousnessپیدا کرتا ہے۔ برین ریسرچر ڈاکٹر جارج کا کہنا ہے کہ لاشعور کی یہ بہتی ندی انسانی سوچ‘ زندگی کو دیکھنے کے انداز۔ زاویے‘ نظریات سب کچھ بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اگر دریا کا بہائو بدل جائے تو اس میں چلنے والی چھوٹی بڑی ہر کشتی متاثر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر جارج کا کہنا ہے کہ جو لوگ آخری حد تک زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ان میں یہ کیفیت اتنی شدید ہوتی ہے جو انہیں منفی سوچ کے نظام سے جوڑ دیتی ہے انہیں سب کچھ تاریک دکھائی دیتا ہے۔ دماغ کے کونے میں موجود مایوسی کے تاریک گوشے پر یہ ریسرچ پڑھ کر ایک بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ بڑے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہے۔ جیسا کہ اس ریسرچ میں ہے کہ یہ میکانزم اس وقت متحرک ہوتا ہے جب دماغ آرام کی حالت میں ہو،کسی کام میں مصروف نہ ہو‘ خالی ہو۔ بڑوں سے ایک ضرب المثل میں نے بار بار سنی کہ بیکار مباش کچھ کیا کر۔ اور نہیں کوئی کام ادھیڑ کر سیا کر۔ یعنی اتنا ضروری ہے کہ خود کو کسی مثبت کام میں مصروف رکھنا اگر کوئی مصروفیت نہیں ہے تو اسے ایجاد کر لیں خالی دماغ شیطان کی آماجگاہ نہ بنائیں۔سائیکالوجی میں ایک ریسرچ اسی لیے یہ بتاتی ہے کہ مثبت طور پر مصروف رہنے والے لوگ خوش رہتے ہیں۔Get busy be happyکا تصور اب ایک تھراپی کی طرح استعمال ہو رہا ہے۔ جب آپ کا ذہن کسی کام میں، کسی پراجیکٹ میں مصروف ہو گا تو مایوسی کا تاریک گوشہ کبھی متحرک نہیں ہو سکتا۔روحانی سکالرز بھی یہی کہتے ہیں کہ جب آپ امید سے جڑے رہتے ہیں اور آپ کو یقین ہوتا ہے کہ میری زندگی مسائل سے نکل جائے گی۔ میری زندگی میں بہتری ایسے ہی آئے گی جیسے ہر رات کے اندر سے قدرت دن کو پیدا کرتی ہے تو اس یقین اور امید کی طاقت سے مثبت چیزیں آپ کی زندگی میں ہونے لگتی ہیں اور اگر یہ سوچ لیا کہ اب میں حالات کی ڈھلوان پر موجود ہوں اور میری زندگی بہتر نہیں ہو گی تو مایوسی کی یہ منفی طاقت۔ ہر منفی چیز آپ کی زندگی میں ہوتی رہے گی۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ انسان کے گمان کے ساتھ ہے۔ تم اللہ سے ہمیشہ اچھا گمان رکھو۔ اچھا گمان کیا ہے۔ یہی کہ پر امید رہا جائے۔ ہر حال میں مثبت سوچ رکھیں۔