ہِمتِ اُو کِشت ِ ملت را چو اَبر ثانی ٔ اسلام و غار و بدر و قبر آن امن الناس برمولائے ما آن کلیم ِ اول سینائے ما (سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذاتِ اقدس مسلمانوں کے لیے ابرِ بہار کی طرح ہے ،آپ اسلام لانے میں،غار میں،بدر میں اور قبر میں ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں۔آپ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مُحسنِ اعظم ہیں اور آپ ہی ہم راز مصطفی ہیں۔) حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اصل نام’ عبداللہ‘ تھا اور کنیت’ ابوبکر‘ تھی۔ والدہ ماجدہ کی کنیت’ ام الخیر‘ اور نام’ سلمی بنت صخر بن عامر تھا‘بعض روایات کے مطابق آپ کا پہلا نام ’عبدالکعبہ ‘تھا اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’ عبداللہ‘ رکھا۔آپ کا ایک لقب ’عتیق‘ بھی ہے اور جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس لقب کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا کہ:ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا تھاکہ’ ھذا عتیق اللہ من النار ‘یعنی اللہ کایہ بندہ آگ سے آزاد ہے ۔ آپ کا مشہور لقب’ صدیق‘ ہے اور لفظ صدیق کی تشریح میں امام راغب اصفہانی نے مفردات میں آبِ زَر سے لکھے جانے والا نکتہ بیان فرمایا ہے کہ:’’ یہ لفظ دونوں اعراب کے ساتھ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لیے مستعمل ہے یعنی صِدیق بھی اور صَدیق بھی کیوں کہ عربی لغت میں صِدیق سے مراد تصدیق کرنے والا ہوتا ہے اور صَدیق بہت مخلص ساتھی کو کہتے ہیں اور اس میں کسی کو کیا شک ہو سکتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق بھی فرمائی اور ہمیشہ مخلص و وفادار بھی رہے ۔ امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں حدیث بیان کی ہے کہ:’’معراج کی شب سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا جبریل علیہ السلام سے فرمایا کہ میرا قبیلہ تو مجھ پراعتراض کرے گااور میری تصدیق نہیں کرے گا۔جبریل علیہ السلام نے جواباً عرض کیا کہ اگر وہ لوگ اعتراض کریں گے تو کوئی بات نہیں‘ابوبکر آپ کی تصدیق کریں گے کیوں کہ وہ صِدیق ہیں۔‘‘ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بچپن سے ہی غیر معمولی صلاحیتوں اور عاداتِ حسنہ کے مالک تھے ،انتہائی شائستہ لب و لہجے کے مالک تھے ۔عرب میں آپ کا گھرانہ انتہائی معززو ممتاز تھا اور مالی و دنیاوی اعتبار سے بھی بڑا اہل ثروت گھرانہ تھا لیکن سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ جاہ و حشمت کو کبھی پسند نہیں کرتے تھے اور آخر دم تک اسی مزاج کے مالک رہے ۔حضرت سیدنا علی ہجویری داتا گنج بخش علیہ الرحمہ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں کہ:’’سیدنا صدیق اکبر نے آخر وقت تک ابتدائی تسلیم و رضا والا مظاہرہ کئے رکھا۔مؤرخین و سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ آپ ہمیشہ دنیا سے بے رغبت رہتے اور دعا فرماتے تھے کہ:یااللہ!دنیا کو میرے لیے کشادہ فرما لیکن مجھے اس میں مبتلا ہونے سے اپنی پناہ میں رکھ۔شارحین و عرفا کا کہنا ہے کہ دنیا کی کشادگی سے مراد اس کا وسیع و زیادہ ہونا ضرور ہے لیکن اصل نکتہ دوسرے حصے میں مُضمر ہے کہ مجھے اس میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھ یعنی سارا مال و متاع اپنی راہ میں خرچ کرنے اور غربا ومساکین میں تقسیم کرنے کی توفیق عطافرما۔اور سیدنا صدیق اکبر نے بہ فضلِ الہٰی اس کا عملی مظاہر کر کے دکھایا اور سب نے دیکھا اور تاریخ گواہ ہے کہ آپ نے اپنا سب کچھ کس طرح اسلام پر نچھاور کیا اور اس وقت جب لوگ اسلام قبول کرنے میں اور ظاہر ہونے میں تردد و تذبذب کا شکار تھے سیدنا صدیق اکبر سینہ سپر ہوکر میدان میں تھے اور ہر موقع پر ڈھال بن کر اسلام اور مکین گنبد خضری کا دفاع کیا۔سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دنیا اور اہل دنیا سے عدم التفات و بے رغبتی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ جب آپ خلیفۃ المسلمین بنے تو سب سب سے پہلے خطبے کا ابتدائیہ کچھ یوں تھا: بخدا! مَیں ایک دن اور ایک رات کے لیے بھی کسی منصب واَمارت کی خواہش نہیں رکھتااور نہ ہی مجھے اس کی کوئی چاہت ہے اور نہ ہی خفیہ و اعلانیہ مَیں نے کبھی خدا سے اس کا سوال کیا ہے ۔حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمیشہ فرماتے تھے کہ’’دارنافانیۃ واحوالناعاریۃو انفاسنا معدودۃ و کسلنا موجودۃ (یعنی ہمارے گھر فانی ہیں ہمارے احوال عارضی ہیں ہماری زندگی کے لمحات گنِے چُنے ہیں لیکن ہم لاپرواہی کا شکار ہیں)حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایسا فرمانا ہماری تربیت اور تلقین کے لیے تھا ورنہ فِکرِ آخرت کے حوالے سے جو جھلک اور نمونہ ہمیں صحابہ کرام اور اکابر مشائخ کی زندگیوں میں نظر آتا ہے وہ عدیم النظیر ہے ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مُقدسہ کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ منصبِ خلافت کے مختصر ترین عرصے میں آپ نے اسلام کے خلاف اُٹھنے والے فتنوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا۔مُنکرین زکوۃ، فتنہ ارتداد،فتنہ مسیلمہ کذاب اور فتنہ سجاح بنت حارث ایسے مسائل تھے جن سے نمٹنا آسان نہ تھا لیکن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے مصاحبین کے ساتھ مل کر ایسے تمام فتنوں کی کمر توڑی۔ خدمتِ خلق،شجاعت،بہادری اور مہمان نوازی جہاں اہالیانِ عرب کا طرہ امتیاز تھا وہیں یہ کریمانہ خصائل سیدنا ابوبکر صدیق کو بہ درجہ اتم ودیعت ہوئے تھے ۔مہمان نوازی کا یہ عالَم تھا کہ اگراہلِ خانہ سے کوئی کوتاہی سرزد ہوتی تو سخت اظہارِ برہمی فرماتے ۔بخاری شریف میں ہے کہ:’’ایک مرتبہ چند اصحابِ صُفہ آپ کے یہاں تشریف لائے تو ان کے کھانے پینے کا انتظام آپ نے اپنے فرزند (حضرت ) عبدالرحمن(رضی اللہ عنہ) کو یہ کہہ کر سونپا کہ مجھے بارگاہِ رسول میں جانا ہے ۔چنانچہ جب کھانا پیش ہوا تو مہمانان نے صاحبِ خانہ کی عدم موجودگی میں تناول کرنے سے انکار کردیا اور کافی دیر بعد جب سیدنا صدیق اکبر تشریف لائے تو اپنے بیٹے پر سخت برہم ہوئے لیکن جب معاملہ عیاں ہوا تو آپ کا غصہ فَرو ہوا ور مِل کر کھانا تناول فرمایا۔ علم و فضل اور زہد و ورع میں بھی آپ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے سبطِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:وصال پُرملال سے پہلے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی کہ میری اونٹنی،میرا پیالہ اور میری چادر(سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس بھیج دی جائیں کیوں کہ یہ چیزیں مَیں نے بہ حیثیت خلیفہ بیت المال سے لی تھیں اور یہ سب چیزیں جب سیدنا عمر فاروق کے پاس پہنچیں تو فرمایا کہ اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے میرے لیے خلافت کا کام بہت مشکل بناگئے ۔ مختلف علوم مثلاً قرآن، حدیث، انساب،شاعری اور علم التعبیر میں آپ بڑی مہارت رکھتے تھے ۔امامِ تعبیرالرویا علامہ ابن سِیرین کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا فرمان ہے کہ مجھے اللہ نے حکم دیا کہ ابوبکر کے سامنے تعبیر بیان کیا کروں۔ آپ کی شاعری کے حوالے سے مسند احمد میں ہے کہ: ابتدا میں آپ کو شاعری سے بہت زیادہ شُغف تھا لیکن بعد از قبول اسلام آپ نے ترک فرمادیا البتہ کبھی کبھار فرط اشتیاق سے کہہ لیتے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جب آپ نے ایک مرتبہ سیدنا امام حسن کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد تازہ ہوگئی اور بے اختیاریہ شعر کہہ ڈالا: میرا باپ قربان جائے یہ(امام حسن) نبی سے مشابہ ہے ،علی سے مشابہ نہیں ہے ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کرام کی باہمی محبت و الفت بھی تاریخ ِ اسلام کا ایک زریں باب ہے اور ان کی آپس میں بالکل قریبی رشتہ داریاں اس موانست کا واضح ثبوت ہیں۔سیدنا صدیق اکبر کی سیدنا علی المرتضی بالخصوص حَسنین کریمَین سے والہانہ محبت،ان کو خراجِ عقیدت اور غایت درجہ ان کا احترام اور بعینہ اسی طرح اہل بیت کا کھل کر سیدنا صدیق اکبر کے فضائل اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا اس پر ایک نہیں سینکڑوں واقعات کتابوں کی زینت ہیں اور ہر واقعہ اور ہر قول ایک دوسرے سے بڑھ کر حَسین ہے ۔ اسلامِ ما اطاعت خلفائے راشدین ایمان ِ ما مَحبت ِ آل محمد است