چیئرمین سینٹ جناب محمد صادق سنجرانی کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے یوں تو دو بڑی سیاسی پارٹیوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کو شکست ہُوئی ہے لیکن، اصل ناکامی تو، متحدہ اپوزیشن کے متبادل چیئرمین سینٹ ’’ عوامی نیشنل پارٹی ‘‘میر حاصل خان بزنجو بلکہ اُن سے زیادہ امیر جمیعت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) کو ہُوئی ہے۔ اِس لئے کہ اُنہوں نے تو، 28 جولائی کو کوئٹہ میں اپنی جمعیت کے "Million March" میں ہزاروں لوگوں سے خطاب کرتے ہُوئے وفاقی حکومت ( دراصل وزیراعظم عمران کو) خبردار کِیا تھا کہ ’’ اگر اُن کی حکومت اگست تک مستعفی نہ ہُوئی تو، جمعیت عُلماء اسلام ( ف) اپنی دوسری اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر اکتوبر میں اسلام آباد تک ’’ آزادی مارچ‘‘ کرے گی‘‘۔ معزز قارئین!۔ سینٹ آف پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے کل 64سینیٹر ز ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 30 ۔’’ پی۔ پی۔ پی ۔پی‘‘ کے 20 ۔ نیشنل پارٹی کے 5 ۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 4 ۔ جمعیت عُلماء اسلام (ف) کے 4 اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک لیکن، سزا یافتہ اور سابق نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف جیل میں ہیںاور مختلف مقدمات میں ملوث اُن کے قائم مقام صدر’’ پاکستان مسلم لیگ (ن) ‘‘ میاں شہباز شریف اور اُن کے خاندان کے دوسرے افراد اور ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے صدر جناب آصف زرداری ، اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور اور کئی ساتھی "N.A.B" کی حراست میں ہیں ۔ شاید میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری صاحب نے یہ سوچا ہوگا کہ اگر فضل اُلرحمن صاحب ہار گئے تو، وہ ہاریں گے، اُن کا کیا بگڑ جائے گا؟۔ ایوان میں حزبِ اختلاف کے 64 سینیٹرز موجود تھے اور راجا ظفر اُلحق صاحب کی قیادت میں اُنہوں نے کھڑے ہو کر بتایا کہ’’ ہم چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی کے خلاف ’’ تحریک عدم اعتماد‘‘ پیش کرنے کے لئے آئے ہیں لیکن، آئین کے تحت چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لئے 53 ووٹوں کی ضرورت تھی اور جب خفیہ رائے شماری سے انتخاب کا نتیجہ سامنے آیا تو ، چیئرمین سنجرانی کے خلاف صِرف 50 سینیٹرز رہ گئے تھے ۔ پتہ چلا کہ حزبِ اختلاف کے 14 سینیٹرز نے جنابِ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ نہیں دِیا۔ وہ 14 سینیٹرز کون تھے ؟ ، فی الحال پتہ نہیں چل سکا۔ ظاہر ہے کہ ’’ خفیہ رائے شماری کے وقت تو، ووٹر ، سینیٹرز کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ سب سے پہلا ردِعمل میاں شہباز شریف کا آیا ۔ اُنہوں نے ( فی الحال نامعلوم) 14 سینیٹرز کو ’’ضمیر فروش ‘‘ قرار دِیااور کہا کہ ’’ ہم ضمیر فروشوں کو بے نقاب کریں گے ۔ معزز قارئین!۔ وہ باطنی طاقت جو اِنسان کو برائی پر ٹوکتی ہے اور ہمیشہ مائل بہ انصاف رہتی ہے ، اُسے ’’ضمیر‘‘ کہا جاتا ہے اور انگریزی میں "Conscience" ۔ ہمارے یہاں رواج ہے کہ ’’ مخالف سیاستدان ایک دوسرے کو ’’ضمیر فروش‘‘ کے القابات سے نوازتے رہتے ہیں ۔ جب پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا کوئی رُکن اپنی پارٹی کے مخالف لیڈر کے حق میں ووٹ دے تو، اُس لیڈر پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اُس نے"Horse-Trading" کی ہے۔ یعنی۔ ’’سیاسی گھوڑے کو خرید ا ہے ‘‘۔ جناب محمد صادق سنجرانی 12 مارچ 2018ء کو چیئرمین سینٹ منتخب ہُوئے تھے ۔ 24 مارچ کو ننکانہ صاحب کے قریب دریائے راوی پر رائے منصب علی خان کھرل پُل کا افتتاح کرتے ہُوئے ( اُن دِنوں وزیراعظم ) شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ ’’ محمد صادق سنجرانی کی عوام میں کوئی عزت نہیں ہے۔ اُنہیں سینٹ کا چیئرمین منتخب کرانے کے لئے ووٹ خریدے گئے ہیں ۔ آصف زرداری نے منڈی لگائی اور عمران خان رو پڑے کہ ’’ آصف زرداری میرے ’’ "MPS" لے اُڑے ۔ پھر عمران خان نے اپنے سینیٹرز ۔ آصف زرداری کی جھولی میں ڈال دئیے ‘‘لیکن، یکم اگست 2019ء کو پوزیشن یہ تھی کہ ’’ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور آصف زرداری صاحب کی ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے سینیٹرز ۔ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ’’ اِک مِک ‘‘ تھے۔ ’’اصلی پاکستان پیپلز پارٹی؟ ‘‘ معزز قارئین!۔ مَیں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہُوں کہ ’’ 25 جولائی2018ء کے عام انتخابات سے پہلے ’’نواسۂ بھٹو ‘‘ کی چیئرمین شِپ میں ، جنابِ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی ،انتخابی نشان ’’تلوار‘‘ (Sword) والی ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ (پی۔ پی۔ پی) الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ تھی لیکن، جنابِ آصف علی زرداری نے اپنے فرزند ارجمند کی پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دِی تھی۔ اِس وقت پارلیمنٹ اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں جنابِ زرداری کی صدارت میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمٹیرینز‘‘ (پی۔ پی۔ پی۔ پی) ہی سرگرم عمل ہے ۔ اِس کے باوجود چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کہلانے والے بلاول بھٹو کے بقول اُن کی پاکستان پارٹی کے 21 سینیٹرز نے سینٹ سے اپنے استعفے لکھ کر اپنے چیئرمین ؔکی خدمت میں پیش کردئیے ہیں ‘‘۔ آگے کیا ہوگا؟ خُود بلاول بھٹو بھی نہیں جانتے ؟۔ چیئرمین سینٹ منتخب نہ ہونے پر میر حاصل بزنجو نے ’’قومی ادارے کے سربراہ ‘‘ کے خلاف بے بنیاد بیان جاری کِیا ۔ اِس پر پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’’ میر حاصل بزنجو نے اپنے سیاسی فائدے کے لئے جمہوری عمل کو بدنام کِیا ہے ‘‘ ۔ ابھی نہ جانے اور کون کون اور کیا روّیہ اختیار کرے گا ؟۔ معزز قارئین!۔ ہماری ’’سینٹ ، ایوانِ بالا ‘‘ ( Upper House) جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی دین ہے۔ اِس لئے اِس موضوع پر آج بھی جنابِ زرداری / بلاول بھٹو کے کارکن یہ نعرہ لگا سکتے ہیں کہ … کل بھی بھٹو زندہ تھا ، آج بھی بھٹو زندہ ہے! 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہُوا اور مشرقی پاکستان ۔ ’’بنگلہ دیش ‘‘ بن گیا۔ مقتدر قوتوں نے جنابِ بھٹو کو ’’سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدرِ پاکستان نامزد کردِیا۔ وزیراعظم منتخب ہو کر جنابِ بھٹو نے جولائی 1973ء میں بچے کھچے پاکستان (مغربی پاکستان ) کے چاروں صوبوں ، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں "Senate" کے انتخابات کرائے ۔ سینٹ کو ۔ ’’ایوان بالا ‘‘(Upper House) کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ پاکستان میں سینٹ کے قیام کے بعد ہماری منتخب قومی اسمبلی (National Assembly) کو ’’ایوان زیریں‘‘ (Lower House) کہا جاتا ہے ۔ جنابِ بھٹو نے یہ "Idea" انگلستان ( برطانیہ ) سے حاصل کِیا ۔ انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ اوّل (Edward-I) نے 1295ء میں "Model Parliament" قائم کی ۔ ’’کلیسا ‘‘(Church) کے ارکان (پادریوں) جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ’’داراُلامراء ‘‘ ( House of Lords) کا رُکن قرار دِیا اور مختلف اضلاع اور شہروں کے نمائندوں کو ’’ داراُلعوام‘‘ (House of Commons) کے ارکان لیکن، ہمارے ’’جمہور‘‘ (عوام) کے لئے ہمارا ’’ ایوانِ بالا ‘‘ (Senate) اور ’’ ایوانِ زیریں‘‘ (National Assembly) دونوں ہی ’’داراُلامرائ‘‘ ( House of Lords) ہیں جو، جمہورؔ کی قسمت کے سارے فیصلے کرتے ہیں ۔ معزز قارئین!۔ ہمارے مختلف سیاستدان اور مذہبی جماعتوں کے سربراہ ’’نظریہ بدل بھائی‘‘ ہیں ، جن میں سے فضل اُلرحمن صاحب پیش پیش ہیں ۔ لبنانی نژاد ، امریکی شاعر، مصّور، فلسفی ، مُصنف ، ناول نگار ، مجسمہ ساز اور فن کار "Gibran Khalil Gibran" نے اپنی ایک کتاب میں ایک واقعہ بیان کِیا کہ’’ کسی کلب میں ، دو دوست کئی مہینے بعد ملے۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ ’’ جب میری اور تمہاری آخری بار ملاقات ہُوئی تھی تو تم ایک خاتون کے ساتھ بڑی قُربت دِکھا رہے تھے ، وہ کون تھی؟‘‘ ۔ اُس دوست نے کہا کہ ’’ وہ میری "Cousin" تھی‘‘۔ اِس پر سوال کنندہ دوست مسکرایا اور اُس نے کہا کہ ’’ وہ خاتون آج کل میری "Cousin" ہے‘‘۔ چیئرمین سینٹ جناب محمد صادق ؔ ،قسمت کے دھنی ہیں ۔ خفیہ رائے شماری میں اُن کے حق میں ووٹ دینے والے 14 "Horses"( گھوڑوں ) کا کمال ہے کہ’’ اُن کے طفیل وہ ’’سینٹ کے امینؔ ‘‘ ٹھہرائے گئے ہیں ؟۔ اِیں سعادت ، بزورِ بازُو نِیست ! تا نہ بخشد، خُدائے بخشندہ!