امریکی صدارت کا منصب سنبھالتے ہی جوبائیڈن نے پہلے دن اپنے پیشرو صدرڈونلڈ ٹرمپ کے قلم سے صادر ہونے والے کئی اہم فیصلوں کو لغو قرار دیا ۔مثلاسابق صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے دنوں میں سفری پابندیوں (جن میں سات مسلم ممالک سرفہرست تھے) کا اعلان کیاتھاجبکہ صدر جو بائیڈن نے اس کا خاتمہ کر دیا ہے۔ڈونلڈٹرمپ نے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیاتھا،بائیڈن نے اس منصوبے کوبھی موقوف کردیا ۔ٹرمپ نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکہ کو نکال دیاتھااور عالمی ادارہ صحت سے امریکہ کو نکال دیاتھا لیکن جوبائیڈن نے اس میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کردیا ، وغیرہ وغیرہ۔ افغانستان چونکہ اس خطے کا وہ واحد ملک ہے جس کے امن سے پورے خطے بلکہ پورے ایشیاء کا امن جڑا ہواہے ، یوں ہمارے لئے اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ افغانستان کے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اس طویل بیس سالہ جنگ سے امریکہ کو نکالنے کیلئے گزشتہ سال فروری میں دوحہ میں طالبان کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا۔جس میں یہ طے پایاتھا کہ امریکہ رواں سال مئی تک اپنی افواج کا انخلا کرے گا، طالبان رہنماووں کو بلیک لسٹ سے نکالے گا اور افغان حکومت کی قید میں طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہائی دلوائی جائے گی۔اس کے جواب میں طالبان نے یہ عہد کیاتھاکہ وہ مستقبل میں افغان سرزمیں کو امریکہ کے خلاف دہشتگردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیںگے، تشدد میں کمی لائیں گے اور ایک مہینے کے اندر بین الافغان ڈائیلاگ کا حصہ بنیں گے۔نئے صدر جوبائیڈن کی طرف سے اہمیت کے حامل اس قضیے پر اگرچہ اب تک دو ٹوک موقف سامنے نہیں آیا ہے تاہم اس ڈیل پر نظرثانی کا عندیہ انہوں نے ضروردے دیاہے۔سچی بات یہ ہے کہ اس قضیے نے نہ صرف افغان حکومت اورافغان طالبان کو پریشان کیا ہوا ہے بلکہ اس نے امریکہ اورافغان عوام کو بھی کنفیوژ کررکھاہیں ۔ افغان حکومت ا س مخمصے کا شکار ہے کہ دودہائیوں سے امریکی تعاون سے ایک کمزور جمہوریت اور کمزور ادارہ جاتی نظام کا جو ڈھانچہ انہوں نے تیار کیا تھا، امریکی انخلا کے بعد اس کا کیا بنے گا؟ افغان عوام پریشان ہیں کہ اگر طالبان اورحکومت نے ایک دوسرے کو اب بھی قبول نہیں کیاتو وہ مزید اپنے پیاروں کے کتنے جنازے اٹھائیں گے ؟ طالبان (جو اس وقت خود بھی ایک پیچ پر نہیں ہیں کیونکہ بعض اب بھی ماضی کی طرح تخت کابل حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے اور بعض کچھ لوکچھ دو کی پالیسی پررضامند دکھائی دیتے ہیں اور مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہیں)کو فکر لاحق ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟امریکہ دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کے تعطل سے پریشان ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ دونوں اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کو تسلیم کرکے اسے باوقار طریقے سے نکلنے کا موقع دیں۔ اسی طرح پاکستان کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ افغانستان میں کسی طرح ایک ایسا سیٹ اپ تشکیل ہوجس سے اسے خدشات لاحق نہ ہوں۔ پاکستان سمجھتاہے کہ طالبان جو کہ اس وقت بہت حوالوں سے افغانستان میں مُسَلم اسٹیک ہولڈر بن چکاہے ،کے اوپر وہ کیسے اور کس طرح اثر انداز ہوسکتاہے؟ مثلاً اگر اس کو زیادہ دبانے میں بھی پاکستان کا فائدہ نہیں اوراس کو بہت ڈھیلا کرنا بھی وہ خود کیلئے نقصان دہ سمجھتاہے۔سوال یہ ہے کہ آخر اس قضیے کے حل کی چابی کس کے ہاتھ میں ہے ؟ اس کا جواب بعض مبصرین یہ دیتے ہیں کہ امریکہ جب بھی چاہے تو افغانستان امن و استحکام کا گہوارہ بن سکتاہے ۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان جب بھی اس ملک میں مداخلت بند کرے گا اسی دن سے حالات سنبھل جانا شروع ہوجائینگے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کے امن کی کنجی افغانوں اور فقط افغانوں ہی کے ہاتھ میں ہے ، یوں جامع اور مخلصانہ بین الافغان مذاکرات ہی کے ذریعے افغانستان کے دن پھیر ے جا سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ درآئی ہے کہ افغانوں کے بیچ مذاکرات اول تو شروع نہیں ہورہے تھے اور جب اس عمل کا آغاز ہوگیا تو اب یہ دونوں طرف سے ہٹ دھرمیوں کی بھینٹ چڑھ کر تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔ امریکی وزارت دفاع الزام لگارہی ہے کہ طالبان امریکہ کیساتھ کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف جمعہ کو طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان عباس ستانکزئی کا تازہ بیان یہ ہے کہ طالبان امریکہ کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی اب بھی پاسداری کررہے ، یعنی وہ نہ تو داعش اور کسی دوسرے عسکری گروہ سے رابطے رکھتے ہیں نہ ہی تشدد کو بڑھارہے ہیں۔ افغان حکومت کہہ رہی ہے کہ طالبان تشدد سے باز نہیں آرہے جبکہ طالبان افغان حکومت کو موردالزام ٹھہرارہے ہیں کہ حکومت جان بوجھ کر تشدد کو بھڑہاوادے رہی ہے تاکہ امریکہ دوحہ ڈیل پر نظرثانی کرسکے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان اور افغان حکومت دونوں تشدد کے ذمہ دار ہیں۔ اول الذکر اپنی طاقت کو منوانے کیلئے تشدد کو ہوادے رہاہے جبکہ ثانی الذکریعنی حکومت تشدد کے ذریعے جوبائیڈن انتظامیہ کو دوحہ ڈیل سے منحرف ہونے کی امید لگائے بیٹھی ہے۔اب اگر بین الافغان مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تو غالب امکان یہی ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ ٹرمپ دور کے معاہدے کو ختم کر دیے گی اور افغانستان میں قیام امن کی امید ایک مرتبہ پھر دائو پر لگ جائے گی۔میرے خیال میںسابق صدر حامد کرزئی اور ان کے کچھ ہم خیال رہنما اس وقت امید کی واحد کرن ہے جو بین الافغان مذاکرات کوبڑی حدتک نتیجہ خیز ثابت کرنے میں کردار اداکرسکتے ہیں۔یوں امریکہ اور افغانوں کی نبض کو بہتر سمجھنے والے تجربہ کار کرزئی آگے بڑھ کر کردار اداکریں اور دونوں اطراف سے ہٹ دھرمیوں کا خاتمہ کرکے کچھ لو اورکچھ دو کی پالیسی کے تحت ایک مشترکہ سیٹ اپ پر فریقین کو راضی کرلیں ، ورنہ (خدا نہ کرے) بدقسمت افغان وطن کا مستقبل ماضی سے کہیں تاریک ہوسکتاہے ۔