یہ مذاکرات تو مارچ میں ہونا قرار پائے تھے۔ معاہدہ دو ’’عظیم‘‘ طاقتوں کے درمیان ہوا تھا۔ ایک دنیاوی سازوسامان، ٹیکنالوجی اور معاشی برتری کے دیوتائوں کی نمائندگی کرتی تھی اور دوسری چند ہزار سرفروش طالبان کے لشکروں کا چہرہ تھا، وہ لوگ جو گذشتہ انیس سال سے صرف اور صرف خدائے واحد پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی کے قانونِ شریعت کے نفاذ کے لئے لڑرہے تھے۔ دوحاکے مذاکرات اس مملکتِ افغانستان کے مستقبل سے متعلق تھے، جس کی حکومت کو اقوام متحدہ، اس کے تمام ذیلی ادارے اور دنیا کا ہر ملک قانونی طور پر ایک جائز حکومت سمجھ کر تسلیم کرتا تھا۔ لیکن جب طالبان نے اشرف غنی کی اس ٹوڈی حکومت کو قانونی اور جائز حکومت ماننے سے انکار کیا تو پھر دنیا کا کوئی ملک اور کوئی عالمی ادارہ اس حکومت کو امن مذاکرات میں طالبان کے برابر لا کر بٹھانے کی جرأت نہ کرسکا۔ اشرف غنی سے لے کر عبداللہ عبداللہ اور ان کے حمایتی ملک، سب کے سب دور بیٹھے ’’تماشائے اہل کرم‘‘ کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ مذاکرات کے آغاز میں 8جولائی 2019ء کو ’’روڈ میپ‘‘ لکھا گیا، تو امریکہ اور طالبان نے اس کے آغاز میں تحریر کیا کہ ’’Both Groups Agree To Institutionalizing Islamic System For The Implementation Of The Comprehensive Peace‘‘ یعنی دونوں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ ایک جامع امن کے قیام کے لئے اداروں کو اسلامی نظام کے مطابق ڈھالا جائے۔ اس روڈمیپ سے لے کر 29فروری 2020ء کو امریکہ طالبان معاہدے ہونے تک لاتعداد مذاکرت ہوئے مگر ہر اس گروہ کو دور رکھا گیا، جو خود کو افغانستان کی قسمت کا مالک سمجھ بیٹھا تھا۔ اس معاہدے میں دو اہم فیصلے ہوئے۔ پہلا یہ کہ افغان حکومت ایک قانونی حکومت نہیں ہے، لیکن طالبان اسے یہ رعایت دیں گے کہ دیگر افغان گروہوں کی طرح ان سے ایک گروہ کی حیثیت سے مذاکرات کریں گے، دوسرا یہ کہ مذاکرات سے پہلے امریکہ کی افواج سرزمینِ افغانستان کو چھوڑنے کا آغاز کریں گی اور دونوں جانب کے قیدی رہا ہوں گے۔ افغان حکومت جو خود کو عالمی برادری کے ممبر ممالک کی ایک تسلیم شدہ حکومت سمجھتی تھی، اس نے بھارت اور دیگر ہمدردوں کی شہہ پر اس معاہدے کو ناکام کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ امریکی افواج کا انخلاشروع ہوچکا تھا، مگر قیدیوں کے تبادلے میں رکاوٹیں شروع کر دی گئیں۔ ادھر جنگ جاری رہی، قیدی رہا ہوتے رہے اور آخر کا ستمبر 2020ء کا مہینہ آگیا۔ افغان حکومت کے پاس اب صرف چھ اہم طالبان رہ گئے جن کے بارے میں آسٹریلیا، فرانس یہاں تک کہ امریکی پینٹاگون کے بھی کچھ حلقے دبائو ڈال رہے تھے کہ انہیں رہا نہ کیا جائے۔ دونوں گروپ مذاکرات کے لئے قطر میں موجود تھے، لیکن گفتگو شروع نہیں ہو پا رہی تھی۔ طالبان کا مطالبہ تھا کہ ان چھ قیدیوں کی رہائی کے بغیر ہم مذاکرات کی میز پر نہیں آئیں گے۔ کئی دن کی گفت و شنید کے بعد وہ عالمی طاقتیں جو اس غرور میں تھیں کہ ہم بہت طاقتور ہیں، خاموشی سے سرجھکائے کھڑی تھیں اور دوحاکے ہوائی اڈے سے ایک چھوٹا سا طیارہ ان چھ طالبان کو لانے کے لئے پرواز کر چکا تھا۔ بگرام جیل سے باہر نکلنے کے بعد ان چھ طالبان سے درخواست کی گئی کہ آپ اپنے حلیے تھوڑے درست کر لیں اور نیا لباس جو ہم لائے ہیں وہ زیب تن کرلیں، تاکہ انہیں دنیا کے سامنے بہتر بنا کر اس لئے پیش کیا جائے کہ لوگ ان کے چہروں سے جیل کو صعوبتیں نہ پہچان سکیں۔ جہاز میں جتنی تعداد طالبان کی تھی اتنی ہی تعداد میں صحافیوں کو بھی بٹھا یا گیا تھا تاکہ وہ فوراً ان کی رہائی کی تصدیق کردیں اور مذاکرات شروع ہوں۔ ادھر جہاز روانہ ہوا اور دوسری جانب مذاکرات کا آغاز۔ ان رہائی پانے والے چھ طالبان لیڈروں کو کرونا وائرس کی وجہ سے قطر کے ایک گھر میں علیحدہ رکھاگیا۔ مذاکرات کے آغاز میں پندرہ عالمی رہنمائوں کی تقریریں ہوئیں۔ پہلی تقریر مہمان ملک قطر کے وزیر خارجہ عبدالرحمن الثانی کی تھی، جس نے کہا، ’’متحارب قوتوں کو جدید دور کے چیلنجز کے مطابق فیصلے کرنے چا ہییں اور ہر طرح کے اختلافات سے بالا تر ہوکر ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جس میں کوئی فاتح ہو اور نہ مغلوب‘‘۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا، ’’آپ لوگوں کو یہ موقع ملا ہے کہ آپ اپنے اختلافات کا خاتمہ کریں۔ آپ صرف موجودہ نسل کے بارے میں نہیں بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے بارے میں بھی فیصلے کرنے جارہے ہیں‘‘۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا، ’’افغانوں کو بغیر کسی بیرونی دبائو کے اپنے فیصلے خود کرنے چاہییں اور انہیں اپنی قسمت کا خود مالک ہونا چاہیے‘‘۔ بالکل اسی طرح کے الفاظ بھارت کے وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کہے، ’’امن کے اس عمل کی قیادت، ملکیت اور کنٹرول صرف اور صرف افغانوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے‘‘۔ لیکن جے شنکر کی تقریر میں وہ مطالبات بھی پیش ہوئے جو بعد میں افغان حکومت نے بھی طالبان کے سامنے رکھے۔ جے شنکر نے کہا، یہ مذاکرات افغانستان میں انسانی حقوق، جمہوریت، اقلیتوں، عورتوں اور محروموں کے معاملات پر غور کرے اور افغانستان میں شدت پسندی کے بارے میں بھی سوچے۔ یہاں بھارتی وزیرخارجہ نے کسقدر حسرت سے اپنی سرمایہ کاری کا ذکر کیا، جو ضائع ہو چکی تھی۔ اس نے کہا ’’افغانستان کی سرزمین کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں ہمارے چار سو ترقیاتی منصوبے پر کام نہ ہوا ہو‘‘۔ یہ تمام تقریریں کرونا وائرس کی وجہ سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہوئیں۔ مذاکرات کے آغاز سے ہی سٹیج سیکرٹری سب کوماسک پہننے کی ہدایات دیتا رہا، لیکن وہ بندگانِ خدا کیسے بے خوف تھے کہ نہ ماسک پہنے ہال میں داخل ہوئے اور نہ ہی مذاکرات میں پہن کر بیٹھے۔ مذاکرات سے پہلے بھارت نے ان مذاکرات کو خراب کرنے کے لئے افغان نائب صدر امر اللہ صالح سے ایک بیان دلوایا تھا کہ افغان قوم پاکستان کے ساتھ ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کو کبھی نہیں بھول سکتی، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ پشاور ان کا سرمائی صدر مقام ہوتا تھا۔ بھارت کی اس شرارت کا جواب کسی اور نے نہیں بلکہ براہ راست امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلس نے دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’’تمام گروہوں اور سیاستدانوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ڈیورند لائن ایک بین الاقوامی طور پر مسلمہ سرحد ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ قوم پرستی اور گذشتہ دور سے جڑے ہوئے دعوے کرنے کی بجائے پاکستان اور افغانستان کے درمیان پر امن اور معاشی بہتری والے تعلقات قائم کریں‘‘۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کی طرف سے جواب تو ایک سفارتی ردعمل تھا، مگر امراللہ صالح کے قافلے پر نو ستمبر کو خوفناک حملہ ہوا، جس میں وہ بال بال بچ گیا۔ بھارت کی شدید پسپائی، امریکی اور عالمی اتحاد کی سرپرستی میں قائم افغان حکومت کی بے بسی اور خود امریکی حکومت کی حالت اس وقت دیکھنے والی تھی، جب مذاکرات میں طالبان نے اپنی ٹیم کے سربراہ کے طور پر ’’مولانا عبدالحکیم حقانی‘‘ کو پیش کیا۔ مولانا عبدالحکیم افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کے دینی حلقوں میں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کو مولانا عبدالحکیم اسحاق زئی بھی کہا جاتا ہے۔ وہ مدتوں کوئٹہ کے ایک مدرسے میں درس و تدریس سے منسلک رہے اور امیر امارات اسلامی مولانا ہبّت اللہ اخوندہ زادہ کے بہت قریب ہیں۔ مومن کی فراست کا یہی کمال کے کہ جب تک طالبان کے مذاکرات امریکہ کے ساتھ تھے تو کولمبیا یونیورسٹی کے گریجوایٹ مولانا عباس استانکزئی کو سربراہ بنایا گیا، لیکن جب مسئلہ افغانوں کے ساتھ مذاکرات کا آیا تو اس شخص کو سامنے لایا گیا جو شریعت کا سب سے بڑا عالم ہو۔ مذاکرات میں افغان حکومت نے وہی مطالبات رکھے جو بھارتی وزیر خارجہ اپنی تقریر میں پیش کر چکا تھا، ’’آئینِ جمہوریت اور عورتوں کے حقوق‘‘۔ وہی نعرے جن سے سیکولر لبرل میڈیا کو متاثر کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس طالبان نے صرف ایک ہی مطالبہ رکھا، ’’جو کچھ ہوگا شریعت کی بالادستی اور نفاذ کے تحت ہوگا، خواہ وہ عورتوں یا اقلیتوں کے حقوق ہوں یا اقتدار کا طریقِ کار۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے انیس سال نہ علاقے فتح کرنے کے لئے لڑائی کی اور نہ ہی قومی آزادی کے لئے، ہم نے تو صرف اور صرف اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کے نفاذ کے لئے لڑائی کی ہے۔ اگر یہ قبول نہیں تو ہم واپس جنگ کی طرف لوٹ جاتے ہیں‘‘۔