یوں لگتا ہے پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اس بات سے بے نیاز ہوچکی ہیں کہ اس ملک میں اقدار و روایات، اخلاق و تہذیب اور شرافت و نجابت کو روندنے والی کسی بھی طرح کی قانون سازی ہوتی رہے وہ اس کا حصہ بھی بنیں گی اور انہیں اس کی پرواہ بھی نہیں ہوگی۔ ایسی ہی ایک ’’وسیع البنیادقومی مصالحت‘‘ کا نظارہ 21جون2021ء کو پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی ’’سینیٹ‘‘میں دیکھنے کا موقع ملا، جب ان تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے اختلافات بھلا کر بجٹ کی گالیوں بھری ’’گہما گہمی ‘‘میں بھی گھریلو تشدد (Domestic Violence) کی روک تھام کا بل آناً فاناً منظور کر لیا۔ اس مشترکہ قانون سازی کے دوران نہ کسی کو ’’این آر او‘‘ کے طعنے یاد آئے، نہ ’’عمران نیازی‘‘ کو پکارکر گالیاں دینے کی نوبت آئی اور نہ ہی اس قانون میںسندھ کی اجرک اور ٹوپی کی توہین نظر آئی۔ ایسے قوانین صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی عمارت یعنی ’’خاندان‘‘ کی بنیادوں کو ہلانے اور آخر کار اسے مسمار کرنے کے لیئے نافذ کیئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے خاندانی نظام کی مضبوط عمارت کو گرانے والے اس ’’جمہوری کدال‘‘ کو پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے مشترکہ طور پر اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور خاندان کی عمارت ڈھانے کے لیئے ووٹ دیئے جا رہے تھے۔چاروں صوبوں کے اس نمائندہ ایوان میں صرف جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی آواز گونجتی رہی۔ لیکن اس شخص کے نوحے ، مرثیے اور ماتم کے باوجود سینیٹ میں ’’جمہوری ووٹنگ کی کربلا‘‘ برپا کر دی گئی۔دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ خاندانی نظام کی تباہی اور اسلامی اقدار کے منافی جس بل کومنظورکیا گیا ہے ،اسے جس کمیٹی نے ترتیب و تدوین بخشی اس کا سربراہ ولید اقبال تھا، جو شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کا پوتا ہے۔ وہ اقبال جس کی اشک سحرگاہی اس تباہی پر ماتم کرتے گذری ہے۔ گھریلو تشدد (تدارک اور روک تھام) کے اس بل میں گھریلو تشدد کی جو تعریف اسکے آرٹیکل (3)میں ہے وہ اس قانون کے خفیہ مقاصد کی وضاحت کیلئے از خودہی کافی ہے۔ چونکہ یہ بل سینٹ میں انگریزی میں پیش کیا گیا تھااور دانستہ طور پر اس کا اردو ترجمہ بھی فراہم نہیں کیا گیا، اس لیئے پہلے انگریزی الفاظ کی ’’بُنت‘‘ میں چھپی ہوئی تلواروں کو محسوس کریں اور ساتھ ہی اردو ترجمہ بھی کر رہا ہوں تاکہ اس قانون کے نفاذ کے بعد آئندہ آنے والے دنوں کا نقشہ کھل کر سامنے آجائے۔ Domestic Violence shall mean all acts of physical, emotional, psychological, sexual and economic abuse committed by a respondent against women, children, vulnerable persons, or any other person with the respondent is or has been in a domestic relationship that causes fear, physical or psychological harm to the aggrieved person. ’’گھریلو تشدد میں ایسے تمام افعال شامل ہوں گے جو کسی گھر میں عورت، بچے یا ’’نقصان پہنچائے جانے کے قابل شخص‘‘ پر جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، جنسی یا معاشی بدسلوکی کا باعث بن رہے ہوں۔ایسا شخص گھر میںمقیم کسی بھی رشتے دار کو خوف کا شکار کرتا ہو، جسمانی طور پر نقصان پہنچاتا ہو یا نفسیاتی طور پر پریشان کرتا ہو‘‘۔ اس قانون کے تحت چونکہ صرف جسمانی تشدد کی وضاحت کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ بہت واضح ہوتا ہے اور نظر آتا ہے اور اس کی میڈیکل رپورٹ بنائی جاسکتی ہے اس لیئے تفصیل درج نہیں کی گئی۔مگر ’’جذباتی تشدد‘‘ کی وضاحت چونکہ ضروری تھی اس لیئے وضاحت کے طور پر آرٹیکل کے (B) سیکشن میں نو (9) طرح کے جذباتی اور نفسیاتی تشدد کی فہرست دی گئی ہے۔ ان میںسے چند ایک ملاحظہ فرمائیں، جس کی حسبِ ضرورت تشریح بھی کی جا رہی ہے تاکہ قانون کے پیچھے چھپی ’’خباثت‘‘ واضح ہو سکے۔ (1۔کسی شخص کے ذہن میں جنون کی حد تک کسی دوسرے شخص پر اختیار (Obsessive Possessive)کا مسلسل اظہار، یا کسی خاندانی ممبر سے اسقدر حسد وغیرہ جس سے اس فرد کی آزادی، ذاتی خلوت (Privacy)یا اسکی سلامتی خطرے میں آجائے (اس شق کے تحت اگر کوئی باپ اپنی اولاد سے شدت کی محبت کرتے ہوئے اسے غلط کام کرنے سے ٹوکتا ہے اور وہ اولاداسے اپنی زندگی میں دخل اندازی محسوس کرتی ہے تو پھر وہ بیٹا یا بیٹی اپنے والد کے بتائے ہوئے اخلاقی، مذہبی یا معاشرتی بندھنوں کے خلاف باپ پر مقدمہ کر سکتی ہے۔) (2۔اگر کوئی فرد گھر میں کسی کا مذاق اڑاتا ہے، اس کی توہین کرتا ہے ۔(یعنی اگر باپ یا ماں، بھائی یا بہن کسی کو ’’جگت‘‘ بھی مار دیں تو مقدمہ ہوسکے گا) (3۔کوئی شخص اپنی بیوی یا گھر کے کسی دوسرے شخص کو کہتا ہے کہ میں تمہیں ماروں گا۔(یعنی اگر آپ اولاد کو ڈرانے کے لیئے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں تو یہ ایک جرم ہے) (4۔کوئی خاوند اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا یا دوسری شادی کر لوں گا اور بیوی پر بانجھ پن یا پاگل پن کے جھوٹے الزامات لگاتا ہے۔(یعنی طلاق اور دوسری شادی تو دور کی بات ہے ایسے دھمکی آمیز الفاظ بھی منہ سے نکالنا جرم ہیں) (5۔ کوئی شخص مرضی سے یا بے خبری سے گھر کے افراد سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ ان نو (9)شقوں میں سب سے خوفناک شق ’’Stalking‘‘ ہے جس کے اردو اور انگریزی لغت میں بیشمارمعانی ہیں، یعنی اکڑ کر چلنا، تعاقب کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی باپ کو آپ صرف اس بات پر بھی عدالت کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی اولاد کے بارے میں اتنی سی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ کہیں غلط ہاتھوں میں آکر نشہ وغیرہ کی عادی تو نہیں ہوگئی ہے۔ اس قانون کے تحت گھر کا کوئی بھی ’’ناراض‘‘ شخص عدالت میں درخواست دے سکے گا اور عدالت اس سے پہلا سوال یہ کرے گی کہ تم اس ’’باپ‘‘ ،’’ماں‘‘ ، ’’خاوند‘‘ یا ’’بیوی‘‘کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہنا چاہتے ہو یا نہیں۔اگر وہ نہ کر دے تو عدالت ملزم کو حکم دے گی کہ وہ اسے علیحدہ گھر لے کر دے یا اگر وہ ایسا نہ کر سکتا ہو تو پھر عدالت اسے کسی دارالامان وغیرہ بھیج دے گی۔ عدالت کو اگر اس درخواست کے آغاز میں ہی یہ اندازہ ہوجائے کہ ملزم کے خلاف مقدمہ درست بنتا ہے تو وہ ایک عارضی حکم جاری کرے گی جس کے تحت ملزم سے کہا جائے گا کہ وہ درخواست گذار سے براہ راست یا فون اور موبائل پر بات چیت بھی نہیں کر سکتا۔ایسے ملزم کودرخواست گذار سے دور رکھنے کے لیئے اس کے ہاتھ میں ایک پٹہ پہنا دیا جائے گا جس میں ایک جی پی ایس ٹریکر لگا ہوگا، تاکہ معلوم ہوسکے کہ ملزم کہیں عدالت کے حکم کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا۔ عدالت اپنے احکامات کی نگرانی کے لیئے علاقے کے تھانے کے ایس ایچ اور کی ذمہ داری لگائے گی۔یہ قانون سینیٹ نے 21جون 2021ء کو منظور کر لیا ہے اور اس کی منظوری میںجس سیاسی اتحاد کا مظاہرہ ہوا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں بھی اس کی منظوری یقیناً ہو جائے گی۔ اس بل کی پیش کار شیریں مزاری نے قانون پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے اقوامِ متحدہ کے قوانین کی پاسداری میں بنا رہے ہیں۔ عالمی اداروں کا نام سن کر ٹانگیں تو کانپنا تھیں ہمارے جمہوری رہنماؤں کی۔ کسی بھی معاشرے میں جب حکومتیں ایسے قانون نافذ کرتی ہیں جن کا عوام کی اخلاقیات اور معاشرتی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا تو پھر تاریخ میںاس کے دو ردّعمل نظر آتے ہیں۔ عوام میں سے بزدل لوگ اس طرح کے قوانین سے بچنے کے لیے بیشمار طریقے اختیار کرتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔لیکن عوام کی اکثریت کے علاوہ لاتعداد ناراض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس طرح کے اخلاقی زوال پر شدید برہم ہوجاتے ہیںجس کے نتیجے میںبیشمار لٹھ مار گروہ ضرور پیدا ہوتے ہیں جو قوتِ بازو سے ایسے قوانین کا راستہ روکتے ہیں۔ پاکستان جیسے مسلمان معاشرے میں ایسے ’’قانون‘‘ کے نفاذ سے دوہرا مقصد حل کیا جارہا ہے۔ لوگ راضی ہوگئے تو خاندان کی تباہی کا راستہ نکل آئے گا۔ لیکن اگرلوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو یہ کہنے کا بہانہ مل جائے گا کہ مسلمان تو ہیں ہی ’’شدت پسند‘‘۔