یہ تماشا بھی مملکت خداداد میں ہونا تھا۔ تین بار کسی نہ کسی طرح وزیر اعظم رہے ۔ پانچ سال پنجاب کی وزارت اعلی کے منصب سے لطف اندوز ہوتے رہے۔جنرل جیلانی نے گملے میں جو پودا لگایا تھا وہ ایسا بارآور ہوا کہ اس کا پھل تین نسلوں نے کھایا ۔جنرل موصوف وڈیرہ شاہی کے سیاسی اثر و سوخ سے اتنے متنفر تھے کہ عوام کے وسیع تر مفاد میں ایک شہری بابو کو، آہن گری جس کا پیشہ تھا، ملک کے سب سے بڑے صوبے کی باگ ڈور تھما کے بقیہ عمر نہر کنارے درخت لگانے میں بسر کردی۔جنرل جیلانی وہ جوہری ہرگز نہ تھے جسے ہیروں کی پہچان ہوتی ہے۔وہ جوہری تو دراصل بریگیڈیئر قیوم تھے جنہیں پوت کے پائوں پالنے میں نظر آگئے تھے اور انہوں نے فوجی دلیہ کھانے والے اس آہن زادے کو جنرل جیلانی کی گود میں ڈال دیا کہ لو پالو پوسو اور بھگتو۔جنرل جیلانی نے سرپرستی کا حق ادا کردیا۔آج کے مرد جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو کے عظیم بیانیے کے موجد کو فوجی آمر نے پہلے پنجاب کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے تربیت دی پھر وزارت اعلی طشتری میں رکھ کر چھری کانٹے سمیت پیش کردی۔سابق وزیرداخلہ میاں زاہد سرفراز اس اجمال کی تفصیل مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ جنرل جیلانی سے ان کی تب سے دوستی تھی جب آپریشن فئیر پلے کے کوڈ نام سے نہایت ستھرے طریقے سے بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا اور جنرل ضیا اس الٹے تختے پہ گیارہ سال کے لئے براجمان ہوگئے اور جنرل جیلانی ضیاالحق کی مارشل لا حکومت میں سیکریٹری دفاع بن گئے۔ میاں زاہد سرفراز چونکہ بھٹو کابینہ میں کامرس میں تھے اور ان کی کارکردگی خاصی متاثر کن رہی تھی تو جنرل صاحب بھی ان سے متاثر ہوگئے۔ بعد ازاں جنرل صاحب کی بطور گورنر پنجاب پوسٹنگ ہوگئی تو دونوں میں گاڑھی چھننے لگی۔ایک صبح کسی وزیر کی خراب رپورٹ پہ برہم جنرل جیلانی نے میاں زاہد سرفراز کو عجلت میں گورنر ہاوس بلایا۔میاں صاحب بولے میں نے نہ منہ دھویا ہے نہ ناشتہ کیا ہے۔گورنر صاحب نے فرمایا دونوں کام ہم تسلی بخش طریقے سے کرادیں گے بس آپ آجائیں۔ میاں صاحب گورنر ہاوس پہنچے تو ناشتے میں انڈے پراٹھے کی فرمائش کردی۔جنرل صاحب نے کہا آپ انار کا جوس بھی پئیں مفرح و مقوی قلب ہے۔میاںصاحب نے انکار کردیا اور کہا کہ انہیں شوگر ہے اس لئے سوری۔جنرل صاحب نے تھوڑی دیر بعد پھر بھلاوا دے کر کہا ۔ایک بار پی کر تو دیکھیں۔میاں زاہد سرفراز نے سوچا ہوگا شوگر کا کیا ہے کنٹرول ہوجائے گی جنرل صاحب دوبارہ انکار پہ آوٹ آف کنٹرول ہوگئے تو کون سنبھالے گا۔جان پہ کھیل کر میاں صاحب نے کہا اچھا منگوالیں۔جنرل صاحب نے ایک نہایت سرخ رو قسم کے نوجوان کو جو سفید کڑک دار کرتا شلوار میں یہاں وہاں پھر رہا تھا ، آواز لگائی۔نواز۔۔وہ بھاگتا ہو ا آیا۔جنرل صاحب نے کہا۔بیرے کو کہو میاں صاحب کے لئے ایک گلاس انار کا جوس لائے۔میاں زاہد کہتے ہیں میں نے پوچھا یہ نوجوان کون ہے۔ جنرل صاحب بولے یہ اتفاق فونڈری والے میاں شریف کا بیٹا نواز شریف ہے۔یہ مستقبل کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف سے زاہد سرفراز کی وہ پہلی ملاقات تھی جو ان کے دل اور ہماری قسمت پہ ثبت ہو کے رہ گئی۔خدا جانے میاں زاہد نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ نوجوان ان سے بھی پہلے یعنی ناشتے کے وقت وہاں کیوں پایا جاتا تھا اور وہ کس قدر پایا جاتا تھا لیکن میاں زاہد کو اس کی خبر نہیں تھی۔اسی سے میاں شریف مرحوم کی بیک ڈور ڈپلومیسی کا اندازہ لگالیں کہ وہ کس طرح گھاگ سیاست دانوں کی ناک کے نیچے اپنا برخوردار فوجی آمروں کی گود میں پلوا رہے تھے۔اب یہ میاں زاہد سرفراز کا فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی کہ جنرل جیلانی کی ایک آواز پہ بھاگ کر انار کا جوس پیش کرنے والا پنجاب کا وزیر خزانہ لگ گیا۔یہ آداب فرزندی ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔بعد میں جب پبلک اور سیاست دانوں کے بے حداصرار پہ بالاکراہ غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو وزارت اعلی کے طور پہ ایک ایسے شخص کا نام سامنے آیا جس کا پس منظر دیہاتی تھا اور وہ منجھا ہوا سیاست دان تھا یعنی ملک الہ یار۔ ان کی جیت نظر آرہی تھی ۔جنرل جیلانی نے میاں زاہد سے مشورہ کیا اور کہایہ گھاگ سیاست دان ہے جیت گیا تو ہمیں تنگ کرے گا تو کیوں نا میاں نواز شریف کو وزیر اعلی لگادیا جائے؟ دروغ برگردن راوی و میاں زاہد سرفراز جنرل جیلانی نے کہا کہ یہ تو موم کا گڈا ہے،جہاں چاہیں گے موڑ لیں گے۔بعد میں ضیا الحق نے میاں زاہد سے دریافت کیا کہ سنا ہے آپ غلام جیلانی کے اس فیصلے سے متفق ہیں۔ میاں زاہد کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ ان کی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے۔اگر اسے اتفاق کہتے ہیں تو اتفاق ہی سہی۔تو اس طرح ہمارے محبوب قائد پنجاب کے وزیر اعلی منتخب ہوگئے۔دوران انتخابات نگراں وزیر اعلی پنجاب رہے جو پاکستان کی انتخابی تاریخ میںایک نادر مثال ہے۔اس دوران پر پرزے نکالنے پہ جنرل ضیاالحق ان سے ناراض بھی ہوئے۔ پنجاب میں چوہدری پرویز الہی، ملک الہ یار جو وزیر اعلی نہ بن سکے تھے اور پیر پگارا کے کچھ لاڈلوں نے نواز شریف کے خلاف کچھ باغیانہ ادائیں دکھانی شروع کردیں تو موصوف کو احساس ہوا کہ جو اگا سکتے ہیں وہ اکھاڑ بھی سکتے ہیں۔اس سلسلے میں ضیا ء الحق کے برادر نسبتی ڈاکٹر بشارت کی خدمات حاصل کی گئیں اور وڈے جنرل کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور ایسا ٹھنڈا ہوا کہ انہوں نے اپنی عمر بھی نواز شریف کو لگنے کی دعا دے ڈالی ۔ جنرل ضیا چونکہ ولایت و امارت کے منصب پہ بھی فائز تھے لہٰذا ان کی دعا کیسے نہ قبول ہوتی ۔چونکہ پاکستان کی اندرونی جیوپولیٹکس کہتی ہے کہ پنجاب میں جس کی حکومت ہوگی ، مرکز میں وہی مطلق العنان ہوگا لہٰذا مرکز اور پنجاب میں رسہ کشی چلتی رہی۔ دو بار برادر خورد پنجاب کے وزیر اعلی بنے۔پہلی بار مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو انہوں نے مرکز کا ناطقہ بند کئے رکھا۔ دوسری بار بھائی بھائی ایک ہوگئے اور پانچوں گھی میں اور سرکڑاہی میں ہوگیا۔آج نہ مرکز میںان کی حکومت ہے نہ پنجاب میںان کے بھائی کی۔نواز شریف ایک مقدمے میں جیل بھگت رہے ہیں اور بیرون ملک علاج کے لئے ضمانت کروانے کی سر توڑ کوشش میں مصروف ہیں۔اللہ ان کو صحت دے لیکن جب ان کے وکیل خواجہ حارث کہتے ہیںکہ نواز شریف نے تو کبھی پاکستان میں علاج ہی نہیں کروایا اوروہ صرف لندن میں ہی ممکن ہے تو مجھے کڑک دار سفید کپڑوں میں ملبو س وہ نوجوان یاد آتا ہے جواقتدار کی خاطر لپک کر انار کا جوس تو لاسکتا ہے لیکن پاکستان میں علاج نہیں کرواسکتا۔